صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے متنازعہ وقف ترمیمی بل کو منظوری دی

نئی دہلی ،06 اپریل :۔

متنازعہ وقف (ترمیمی) بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد باضابطہ طور پر صدر جمہوریہ کی  بھی منظوری مل گئی ہے۔ صدر دروپدی مرمو نے اپوزیشن جماعتوں کے گرما گرم بحث اور احتجاج کے باوجود  اس بل پر دستخط کر دیے۔اب یہ بل باقاعدہ طور پر قانون بن چکا ہے۔حالانکہ اس بل کے خلاف متعدد سیاسی اور مسلم تنظیموں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق  حکومت نئے قانون کا مقصد وقف املاک پر تعصب، غلط استعمال اور تجاوزات کے مسائل کو حل کرنا ہے، جو مسلمانوں کے مذہبی یا خیراتی مقاصد کے لیے رکھے گئے اثاثے ہیں۔ حکمراں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) حکومت نے دلیل دی ہے کہ یہ بل مسلم مخالف نہیں ہے، بلکہ ان جائیدادوں کے انتظام میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔

تاہم اس بل کو کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کانگریس ایم پی محمد جاوید، اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی اور اے اے پی ایم ایل اے امانت اللہ خان سبھی نے اس قانون کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں الگ الگ درخواستیں دائر کی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ یہ بل مسلمانوں کے ساتھ امتیازی اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے، ملک بھر میں احتجاج کا اہتمام کیا ہے۔ بورڈ کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون غلط معلومات پھیلاتا ہے اور مسلم کمیونٹی کے حقوق کو مجروح کرتا ہے۔

بل کے دفاع میں، بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ روی شنکر پرساد نے میڈیا کو بتایا، "یہ قانون وقف بورڈ میں انتہائی ضروری شفافیت اور جوابدہی لائے گا۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ کوئی مسجد یا قبرستان متاثر نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کا مقصد مسلم خواتین کے تحفظ اور وقف املاک کے بہتر انتظام کو فروغ دینا ہے۔