
معصوم مرادآبادی
یہ مئی 1987 کا واقعہ ہے۔ یہی رمضان کا مہینہ تھا۔ مغربی اترپردیش کا شہر میرٹھ جو اپنی قینچیوں کے لیے دنیا بھر میں مشہورتھا، اچانک ایک اور حوالے سے دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ ملک میں رام جنم بھومی کا خونی آندولن چل رہا تھا۔ میرٹھ ان اوّلین شہروں میں سے ایک تھا جو اس کی آگ میں بری طرح جھلس اٹھے۔ فرقہ وارانہ فساد نے میرٹھ کو لہولہان کردیا۔درجنوں افراد ہلاک ہوگئے اور کروڑوں کی املاک جلاکر راکھ کردی گئیں۔لوگ کرفیو کے دوران ہی سحروافطار کررہے تھے۔ 22/مئی کو پی اے سی کے جوانوں نے اچانک مسلم محلہ ہاشم پورہ پردھاوا بول دیا۔ تلاشی کے نام پر چالیس مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے ٹرک میں بھرا گیا اوررات کی تاریکی میں غازی آباد کے قریب جنگلوں میں لے جاکرسبھی کو گولیوں سے بھون دیاگیا۔ یہ سب کچھ خاکی وردی پہنے قانون کے محافظوں نے کیا تھا۔سبھی چالیس نوجوانوں کی لاشیں گنگا نہر میں بہادی گئیں۔ کسی طرح اس قتل عام کی اطلاع فرض شناس پولیس آفیسر وبھوتی نارائن رائے تک پہنچی۔ وہ اس وقت غازی آباد کے پولیس کپتان تھے۔ وہ اس قتل عام کی تہہ تک پہنچ گئے اور انھوں نے اس کی تمام گرہیں کھول دیں اور وہ پہلا صحافی جس نے دنیا کے اس سب سے بڑے حراستی قتل عام کو اپنی بے باک اور بے لاگ رپورٹنگ سے بے نقاب کیا اس کا نام ویریندر سینگر تھا۔ تمام حقائق کے ساتھ ویریندر سینگر نے اس کی نہایت تفصیلی رپورٹ ہندی ہفتہ وار ”چوتھی دنیا“ میں شائع کردی۔ یہ صحافتی دیانتداری اور ایمانداری کی نادر مثال تھی۔ میں نے اس رپورٹ کا اردو ترجمہ کرکے شائع کیا اور ویریندر بھائی کو اس کی ایک کاپی پہنچائی۔ وہ اردو میں اپنی رپورٹ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان سے دوستی ہوگئی۔ 1987سے ہم دونوں ایک دوسرے کے دوست تھے۔ لیکن یہ دوستی کل شام اچانک ٹوٹ گئی۔ اس طرح کہ ویریندر بھائی کی زندگی کی ڈورٹوٹ گئی اور وہ وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔بلاشبہ ہاشم پورہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں جہاں وبھوتی نارائن رائے کی انتھک جدوجہد کا دخل تھا تو وہیں ہاشم پورہ قتل عام کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کاکریڈٹ ویریندر سینگر کو جاتا ہے۔
ویریندر بھائی سے سیکڑوں ملاقاتوں اورباتوں کو یاد کرتا ہوں تو بہت سی باتیں یاد آتی ہیں۔ وہ نہایت سنجیدہ اور کم گو انسان تھے۔ طمانیت ہر وقت ان کے چہرے پر مچلتی رہتی تھی۔ جب بھی ملتے بہت تپاک سے ملتے۔ کبھی پریس کلب میں اور کبھی پارلیمنٹ کے کوریڈور میں ان کا نیاز حاصل ہوتا تھا۔ کل شام جب ان کے اچانک انتقال کی خبر ملی تو دھچکا سا لگا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ایماندارانہ اور بے باکانہ صحافت کا ایک دور ختم ہوگیا۔ آج کے دور میں ویریندر بھائی کی معنویت اس لیے زیادہ تھی کہ آج ہندی کے بیشتر صحافی گھٹنوں کے بل چل رہے ہیں۔ ویریندر بھائی جیسے صحافی انگلیوں پر بھی نہیں گنے جاسکتے۔ان کی ہر رپورٹ گہری چھان بین اور تحقیق پر مبنی ہوتی تھی اور کوئی بھی اسے رد نہیں کرسکتا تھا۔
ویریندر بھائی نے صحافت کی اعلیٰ قدروں کی پاسداری کی اور ہمیشہ سچائی اور ایمانداری کا دامن تھامے رکھا۔انھیں ہندی کا سب سے بڑا صحافی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ ویریندر سینگر نے اپنا صحافتی سفرہندی روزنامہ ’امراجالا‘ سے شروع کیا تھا۔ پھر وہ ’چوتھی دنیا“ میں آئے اور پھر ”سنڈے میل“میں۔ وہ بولتے کم تھے اور لکھتے زیادہ تھے۔ ان کی ہر رپورٹ اور تحریر منفرد ہوتی تھی۔ چار دہائیوں سے زیادہ کے اپنے صحافتی کیریر میں ملک کے نامور سیاست دانوں سے ان کے قریبی تعلقات رہے، لیکن انھوں نے ان تعلقات کو کبھی کسی ذاتی فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ان کی اہلیہ ریتا بھدوریا حکومت ہند کی اعلیٰ افسر تھیں، مگر وہ خود نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آخری دنوں میں وہ نینی تال منتقل ہوگئے تھے اور سوشل میڈیا پر اکثر ان کی چونکانے والی تحریریں نظر آتی تھیں۔ وہ نہ جانے کیسے فیس بک پر میری اردو تحریریں پڑھ کر اس پر ردعمل ظاہر کرتے تھے۔ یہ آخری تحریر ہے جس پر مجھے ان کا کوئی ردعمل نہیں مل سکے گا۔ بلاشبہ ویریندر بھائی بہترین خوبیوں کے انسان تھے۔ ان کی صحافت ہی نہیں ان کی شخصیت اور کردار بھی آئینے کی طرح شفاف تھا۔
الوداع!ویریندر سینگر، الوداع