شملہ: ہندوتو تنظیموں کی اپیل کے بعدسنجولی میں حالات کشیدہ ،پولیس اہلکاروں پر مشتعل ہجوم کا پتھراؤ

 مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپ ،مشتعل ہجوم کی جانب سے پتھراؤ میں  خاتون پولیس اہلکار سمیت 6 سے زائد پولیس جوان زخمی

نئی دہلی ،شملہ11 ستمبر :۔

ہماچل پردیش  کے شملہ علاقے میں واقع سنجولی کی مسجد کے خلاف ہندوتو تنظیموں کا گزشتہ کئی دنوں سے جاری احتجاج آج اس وقت ہنگامہ خیز اور کشیدہ ہو گیا جب وشو ہندو پریشد ، ہندو سینا جیسی شدت پسند تنظیموں نے احتجاج میں شمولیت اختیار کی  ور بڑے پیمانے پر احتجاج کی کال دی ۔مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض نعرے بازی اور احتجاج کا سلسلہ کئی دنوں سے جاری تھا ۔ہندوتو شدت پسندوں کی کال کے بعد حالات  مزید بگڑگئے۔اس دوران پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی مگر مظاہرین نے رکاوٹیں توڑ دیں اور پولیس کے ساتھ جم کر جھڑپ ہوئی جس کے بعد پولیس نے مشتعل ہجوم پر ہلکا لاٹھی چارج کیا ۔مگر اس دوران مشتعل ہجوم نے پولیس پر پتھراؤ کر دیا جس میں ایک خاتون پولیس اہلکار سمیت چھ پولیس جوانوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق ہزاروں مظاہرین  آج ڈھلی ٹنل پہنچے اور یہاں پولیس کی جانب سے لگائے گئے بیریکیٹس کو ہٹاکر سنجولی مسجد کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی۔پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد بھیڑ نے شملہ پولیس پر پتھراؤ کردیا۔ پولیس نے بھی کارروائی کرتے ہوئے بھیڑ پر لاٹھی چارج کیا۔اس دوران  ہندو تنظیموں کی کال پر جمع ہوئے مظاہرین نے’جے شری رام‘ اور ’ہندو ایکتا زندہ باد‘ کے نعرے لگا ئے اور پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔

شملہ انتظامیہ نے حالات کو دیکھتے ہوئے احتیاطی طور پر علاقہ میں 2023 کی بھارتیہ  ناگرک سنرکشن سنہتا کی دفعہ 163 نافذ کردیا  تھاجس کے تحت بغیر اجازت کے پانچ سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے اور مہلک ہتھیار   رکھنے پر پابندی عائد رہے گی۔ حکام نے بتایا کہ سنجولی کے علاقے میں کوئیک رسپانس ٹیم کے ساتھ ایک ہزار سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سنجولی بازار میں واقع مسجد کی تعمیر کو ہندوتو تنظیموں نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے منہدم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ گزشتہ کئی دنوں سے اس سلسلے میں مسجد کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں ۔اس دوران وہ مذہبی نعروں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض نعرے لگا تے رہے۔حیرت انگیز طور پر اس مسجد کے خلاف ہماچل کی حکومت میں متعدد وزیر بھی ہیں اور انہوں نے ہندوتو تنظیموں کی حمایت کرتے ہوئےمسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سکھویندر سکھو کی حکومت میں وزیر انیرودھ نے تو باقاعدہ اسمبلی میں تقریر کر کے اس مسجد کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور منہدم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد بڑے پیمانے پر کانگریس حکومت کی تنقید کی گئی  ۔