سی اے اے کے خلاف طلبہ تنظیموں کا احتجاج،ملک کے سیکولر اقدار کے تحفظ کی اپیل

پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس،یونیور سٹی  کیمپس کو کنٹونمنٹ میں تبدیل کرنے پر طلبہ تنظیم ایس آئی او نے برہمی کا اظہار کیا

نئی دہلی،15مارچ :۔

مرکزی حکومت کی جانب سے سی اے اے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد طلبہ تنظیموں نے بھی مختلف یونیور سٹیوں میں علم احتجاج بلند کیا ہے۔جامعہ ملیہ کے علاوہ جے این یو اور ڈی یو میں بھی طلبہ نے احتجاج کیا جہاں مظاہرین اور پولیس میں ہلکی جھڑپ بھی دیکھنے کو ملی۔دریں اثنا  مختلف یونیورسٹیوں اور طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں کی نمائندگی کرنے والے ایک فورم ‘سٹوڈنٹس کلیکٹو’ نے  بھی حکومت ہند کی جانب سے 2019 کے شہریت ترمیمی قانون (CAA) کو نافذ کرنے کے لیے جاری کردہ حالیہ گزٹ نوٹیفکیشن کے خلاف احتجاج  درج کرایا ہے۔

جمعرات کو مختلف طلبہ تنظیموں نے پریس کلب آف انڈیا، نئی دہلی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی اور مرکزی حکومت کی طرف سے سی اے اے کے بارے میں جاری کردہ نوٹیفکیشن اور کیمپس کو پولیس چھاؤنی میں تبدیل کرنے پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔

انڈیا ٹو مارو کی رپورٹ کے مطابق پریس کانفرنس کو مختلف طلباء تنظیموں اور ان کے عہدیداروں نے خطاب کیا جس میں ایس آئی او سے عبداللہ فیض،آئیسا سے پروسینجیت کمار،فرٹینٹی موومنٹ سے  الفوز اور بی اے پی ایس اے سے پشپندر نے شرکت کی ۔پریس کانفرنس میں طلبہ تنظیموں نے مشترکہ طور پر کہا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ سی اے اے براہ راست ہندوستانی آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔‘‘

 

میڈیا سے بات کرتے ہوئے طلبہ تنظیموں نے کہا کہ ’’بڑی اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کو چھوڑ کر مذہبی بنیادوں پر شہریت دینے کا فیصلہ ہمارے آئین میں درج مساوات، سیکولرازم اور شمولیت کے بنیادی اصولوں پر حملہ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، "سی اے اے کے نفاذ کو نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) سے جوڑ کر، حکومت کمزور مسلم اقلیتوں سے شہریت چھیننے کا خطرہ مول لے رہی ہے۔ "ہم ایسے کسی بھی امتیازی اقدام کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔

میڈیا کو جاری کردہ ایک بیان میں طلبہ تنظیموں نے کہا کہ ’’ہم اس اعلان کے وقت کو ایک انتخابی چال سے کم نہیں سمجھتے، جو کمیونٹیز کو پولرائز کرنے اور تقسیم کرنے والے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے ذریعے ووٹوں کو متاثر کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ واضح ہے کہ حکومت کو اپنے ترقیاتی ایجنڈے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘‘ پر اعتماد نہیں ہے اور اسی لیے وہ سیاسی فائدے کے لیے فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا رہی ہے۔

اپنے مشترکہ بیان میں، طلباء تنظیموں نے کہا، "سی اے اے کے نفاذ سے پہلے، پورے ملک کے کیمپسوں میں بھاری پولیس اور نیم فوجی دستوں کی موجودگی کے ساتھ تعلیمی اداروں کو فوجی بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اور دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) جیسے اداروں میں تعلیمی اداروں میں پولیس کی مداخلت اور طلباء کی من مانی حراست کے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔انہوں نے کہا کہ طلباء کو نشانہ بنانے میں کیمپس انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ملی بھگت جمہوری اصولوں اور طلباء کے حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔

مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ہم تمام انصاف پسند ہم وطنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کے سیکولر تانے بانے کو بچانے اور ہر فرد کے حقوق اور وقار کے تحفظ کے لیے اس مہم میں ہمارا ساتھ دیں۔