‘سیکولرازم’ اور ‘سوشلزم’ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں
آئین سے ان دو الفاظ کو نکالنے کی درخواست پر سپریم کورٹ کا سخت تبصرہ
نئی دہلی، 21 اکتوبر:۔
ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور قرار دینے کے مطالبات تو دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے بارہا کئے جاتے رہے ہیں ۔اس کیلئے ملک کے سیکولر آئین میں بھی تبدیلی کی آواز اٹھائی جاتی رہی ہے ۔آج سپریم کورٹ نے ملک کی آئین کو بدلنے کی خواہش رکھنے والوں کی سخت سر زنش کی ہے ۔ ایک سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آئین سے ان دو الفاظ سیکولر اور سوشلزم کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی درخواست پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے سماعت کی تاریخ میں توسیع کر دی ہے۔ اس دوران عدالت عظمیٰ نے درخواست گزاروں سے سوال کیاکہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک رہے؟ سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ آج کل ‘سوشلزم’ اور ‘سیکولرازم’ الفاظ کی مختلف تشریحات ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری عدالتیں بھی بارہا ان کو بنیادی ڈھانچے کا حصہ قرار دے چکی ہیں۔ اس تبصرہ کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 18 نومبر تک بڑھا دی۔
عدالت نے کہا کہ ان الفاظ کی مختلف تشریحات ہو سکتی ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ہم ان الفاظ کو مغربی ممالک کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے ہندوستانی تناظر میں دیکھیں۔
جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے آئین کے دیباچے سے سوشلزم اور سیکولرازم کے الفاظ کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی درخواست کی سماعت کے دوران یہ تبصرہ کیا۔ یہ عرضی بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی، معروف وکیل اشونی اپادھیائے اور بلرام سنگھ کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
سینئر بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کی طرف سے دائر درخواست میں 42ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سیکولر اور سوشلسٹ الفاظ کو شامل کرنے کی آئینی جواز کو چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 42 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ الفاظ شامل کرنا غیر قانونی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین بنانے والے کبھی بھی سوشلسٹ یا سیکولر نظریات کو آئین میں نہیں لانا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے بھی یہ الفاظ شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے یہ الفاظ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔