سڑک کی توسیع کے منصوبے کیلئے 400 سال قدیم مسجد کے حصے کو مسمار کرنے کی اجازت
گجرات ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے مانسا مسجد کو جزوی طور پر مسمار کرنے کی اجازت دی،مسجد منتظمین کی اسٹے کی عرضی خارج

نئی دہلی ،24 ستمبر :۔
گجرات میں مسلمانوں کی صدیوں پرانی مساجد اور درگاہوں و قبرستان کے خلاف حکومتی اقدامات جاری ہیں۔گر سومناتھ میں متعدد مذہبی یادگاروں کو مسمار کر دیا گیا اب گجرات ہائی کورٹ نے احمد آباد میں 400 سال پرانی مانسا مسجد کو جزوی طور پر مسمار کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ مسجد کے ٹرسٹ کی طرف سے دائر کی گئی چار ہفتے کی روک کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ سڑک کو چوڑا کرنے کا منصوبہ عوامی مفاد میں ہے۔
رپورٹ کے مطابق مانسا مسجد ٹرسٹ نے احمد آباد میونسپل کارپوریشن (اے ایم سی) کے ایک نوٹس کو چیلنج کیا تھا جس میں مسجد کے حکام سے کہا گیا تھا کہ وہ شہر کی ترقی کی اسکیم کے لیے سرسپور کے احاطے کا کچھ حصہ خالی کریں۔ جسٹس مونا ایم بھٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے اے ایم سی کے حکم پر روک لگانے سے انکار کر دیا،اور کہا کہ وقف ایکٹ کی دفعات لاگو نہیں ہوتیں کیونکہ میونسپل کمشنر نے جی پی ایم سی ایکٹ کے ذریعے دیے گئے خصوصی اختیارات کے تحت کام کیا، جس سے درخواست کو قانونی طور پر ناقابل سماعت قرار دیا گیا۔
ٹرسٹ نے استدلال کیا تھا کہ تقریباً 400 سال پرانی سمجھی جانے والی یہ مسجد خاصی مذہبی اور ثقافتی اہمیت کی حامل ہے اور صدیوں سے اس کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ اس کا رجسٹرڈ ٹرسٹ، بمبئی پبلک ٹرسٹ ایکٹ، 1950 کے تحت تشکیل دیا گیا، کمیونٹی کے لیے نماز اور مذہبی سرگرمیوں کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ ٹرسٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہدام مذہبی آزادی کی آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہے اور اے ایم سی پر جنوری 2025 میں دائر اعتراضات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔
ریاستی حکومت نے اس پروجیکٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ٹریفک کی بھیڑ کو کم کرنے اور کالوپور ریلوے اسٹیشن اور احمد آباد میٹرو جنکشن کو جوڑنے والے حصے کے ساتھ شہری ترقی کو بہتر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے۔
یہ حکم گجرات میں تاریخی مسلم مذہبی مقامات کے تحفظ کو لے کر شدید تناؤ کے درمیان آیا ہے۔ گر سومناتھ ضلع میں ایک پانچ صدی پرانی مسجد، ایک درگاہ اور ایک قبرستان کو منہدم کر دیا گیا، جس سے بڑے پیمانے پر غم و غصہ پیدا ہوا اور سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی۔ تاہم سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کے اس دعوے کو برقرار رکھتے ہوئے کہاکہ یہ کارروائیاں قانونی تھیں۔