سپریم کورٹ کے فیصلے سے عدالتی نظام پر اعتماد مزید مضبوط ہوا

بلقیس بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا جماعت سلامی سمیت سرکردہ ملی اور سماجی تنظیموں  نے خیر مقدم کیا

نئی دہلی،08جنوری :۔

بلقیس بانو معاملے میں رہا کئے گئے گیارہ قصورواروں کے سلسلے میں گجرات حکومت کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے رد کرتے ہوئے تمام مجرمین کے خلاف فیصلہ سنایا ہے ۔گجرات حکومت کے فیصلے کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے سخت سرزنش کی ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے انصاف کی نئی امید روشن ہوئی ہے ۔تمام انصاف پسند طبقوں نے اس فیصلے کی ستائش کرتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے ۔ ملک کی سرکردہ  ملی،سماجی  تنظیموں ،شخصیتوں ،انسانی حقوق کے مختلف کارکنوں اور امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیا ہے ۔ جمعیۃ علما ئے ہند ،جماعت اسلامی ہند، مسلم مجلس مشاورت سمیت متعدد تنظیموں نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے انصاف کی جیت سے تعبیر کیا ہے ۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا تہہ دل سے خیرمقدم کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فتح ہے اوراس واضح پیغام کا حامل ہے کہ انصاف پر کسی بھی صورت میں سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ یہ فیصلہ مستقبل کے لیے ایک نظیر بنے گا کہ حکومتوں کو انصاف کی فراہمی میں غیرجانب دار ہونا چاہیے اور عصمت دری اور قتل عام جیسے گھناؤنے جرائم کی سنگینی سے بے پروا نہیں ہونا چاہیے ۔

قصور واروں کی معافی   کا مقصد ایک مخصوص حلقے کو خوش کرنے کے لیے سیاسی منافع حاصل کرنا تھا۔ یہ انتہائی قابل اعتراض تھا اور جماعت اسلامی نے اس وقت اس کی مذمت کی تھی۔ یہ ہمارے انصاف کی فراہمی کے نظام کا مذاق تھا اور اس سے ہمارے ملک کے شہریوں کی اس نظام سے امید ختم ہو سکتی تھی۔

رحمۃ النسا(قومی سکریٹری جماعت اسلامی ہند)

جمعیةعلماءہند کے صدرمولاناارشدمدنی نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا  خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک مثالی اور دوررس نتائج کاحامل فیصلہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے کہ یہ فیصلہ مستقبل کے لئے نظیر بنے گا، اس معاملہ میں جس طرح ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو نظراندازکرتے ہوئے گجرات حکومت نے 15اگست 2022کے موقع پر تمام گیارہ سزایافتہ گنہگاروں کی سزائیں معاف کردی تھیں، اس سے انصاف کو سخت دھچکالگاتھا، ملک کے انصاف پسندحلقوں میں بھی اس کو لیکر تشویش کی لہر دوڑگئی تھی کہ اگر حکومتیں اسی طرح اپنے سیاسی فائدہ کے لئے عدالت سے قصوروارٹہرائے گئے مجرموں کی سزائیں معاف کرنے لگے توپھر ملک میں قانون وانصاف کی کیا حیثیت اوروقعت رہ جائے گی، لیکن امیداافزاپہلویہ ہے کہ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کے رہائی کے غیر اختیاری فیصلہ کو کالعدم قراردیکر ایک بارپھر سپریم کورٹ کے وقار اور بالادستی کی توثیق کردی ہے، اس سے عام شہریوں خاص طورپر ملک کی اقلیتوں میں سپریم کورٹ کے تئیں اعتماد مضبوط ہوگا ۔

جماعت اسلامی ہند کی قومی سکریٹری رحمت النساء نے سپریم کورٹ کے حکم پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت پریشان کن ہے کہ گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کے قانون کی غلط تشریح کرکے منمانی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "عدالت عظمیٰ نے آج اپنے حکم میں بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ گجرات کی بی جے پی حکومت کی طرف سے کیا گیا ایکٹ ایک کلاسک معاملہ تھا جہاں سپریم کورٹ کے حکم کو قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ”قصور واروں کی معافی   کا مقصد ایک مخصوص حلقے کو خوش کرنے کے لیے سیاسی منافع حاصل کرنا تھا۔ یہ انتہائی قابل اعتراض تھا اور جماعت اسلامی نے اس وقت اس کی مذمت کی تھی۔ یہ ہمارے انصاف کی فراہمی کے نظام کا مذاق تھا اور اس سے ہمارے ملک کے شہریوں کی اس نظام سے امید ختم ہو سکتی تھی۔ سب کے لیے انصاف ہمارے آئین کے سب سے زیادہ ماننے والے اصولوں میں سے ایک ہے، اور ہم اس کی تعریف کرتے ہیں۔