طلاق کے لئے چھ ماہ کا انتظار کرنا ضروری نہیں:سپریم کورٹ
جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس اے ایس اوک، جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس جے کے مہیشوری کی آئینی بنچ نے طلاق کو لے کر اہم فیصلہ سنایا ہے۔
نئی دہلی،یکم مئی :۔
عدالت عظمیٰ نے آج طلاق کے مسئلے پر ایک اہم فیصلہ سنایا ہے ۔کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے کہا کہ اگر تعلقات کو سدھارنا ممکن نہ ہو تو کورٹ شادی ختم کر سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ کے مطابق، وہ آرٹیکل 142 کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تعلقات کو سدھارنا ممکن نہ ہو ،کی بنیاد پر فوری طور پر شادی کو ختم کرنے کا فیصلہ سنا سکتا ہے ۔ یعنی آپ کو طلاق کے لیے مہینوں انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ فیملی کورٹ میں گئے بغیر صرف سپریم کورٹ سے ہی طلاق ہو سکتی ہے۔ جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس اے ایس اوک، جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس جے کے مہیشوری کی آئینی بنچ نے یہ اہم فیصلہ سنایا ہے۔
جسٹس ایس کے کول کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کو ایسی شادیوں کو تحلیل کرنے کا حق حاصل ہے (جہاں رشتہ جوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے)۔ طلاق کے لیے قانون کی طرف سے مقرر کردہ چھ ماہ کی مدت ساقط ہو سکتی ہے۔ یہ سپریم کورٹ کی طرف سے پہلے مقرر کردہ رہنما خطوط کے تابع ہوگا۔
حکم نامے کے مطابق عدالت عظمیٰ ایسے معاملات میں مکمل انصاف کرنے کے لیے طلاق کا فیصلہ دے سکتی ہے اور آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت خصوصی اختیارات کا استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن آرٹیکل 142 کے اختیارات سپریم کورٹ کو تحمل کے ساتھ استعمال کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 142 کا استعمال کرتے ہوئے براہ راست طلاق کافیصلہ دے سکتا ہے؟ اس پر آئینی بنچ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ جس میں فریقین کو فیملی کورٹ سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ جہاں انہیں باہمی رضامندی سے حکم نامے کے لیے 6 سے 18 ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے گائڈ لائن بھی جاری کیا ہے۔کورٹ نے گائڈ لائن میں نان و نفقہ سمیت دیگر تجاویز کا بھی ذکر کیا ہے ۔
واضح رہے کہ بنچ نے 29 ستمبر 2022 کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ عدالت نے اپنا حکم محفوظ رکھتے ہوئے کہا تھا کہ سماجی تبدیلی میں ‘کچھ وقت’ لگتا ہے اور کبھی کبھی قانون لانا آسان ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ معاشرے کو تبدیلی پر آمادہ کرنا مشکل ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے بھارت میں شادی میں خاندان کے کردار کو تسلیم کیا تھا۔