سپریم کورٹ کا وقف ترمیمی ایکٹ سے متعلق نئی درخواست کی سماعت سے انکار

نئی دہلی، 2 مئی :
متنازع وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی ہے۔ا س دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ملک کی متعدد ریاستوں میں احتجاج جاری ہے۔ دریں اثنا سپریم کورٹ میں اس تعلق سے نئی درخواستیں میں داخل کی جا رہی ہیں جس پر سپریم کورٹ نے نئی درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ہم اس معاملے میں صرف پانچ درخواستوں کی سماعت کریں گے۔ درخواست گزار اگر چاہیں تو ان معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ وقف ترمیمی قانون پر 5 مئی کو سماعت کرنے جا رہی ہے۔
نئی درخواست محمد سلطان نے دائر کی تھی۔ قبل ازیں مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ترمیم سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ وقف ایکٹ میں ترمیم جائیدادوں کے سیکولر انتظام کے لیے ہے۔ وقف ترمیمی ایکٹ کسی بھی طرح سے آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ یہ ترمیم حکومت کے دائرہ اختیار میں کی گئی ہے۔ وہ جائیدادیں جو پہلے ہی وقف کے طور پر رجسٹرڈ ہیں، صارف کے ذریعہ فراہم کی جانے والی فراہمی سے متاثر نہیں ہوں گی۔ ایک غلط بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے کہ اس سے صدیوں پرانی وقف املاک متاثر ہوں گی۔
17 اپریل کو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وقف ترمیمی قانون کی متنازعہ دفعات کو فی الحال لاگو نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قانون پر فی الحال جمود برقرار رہے گا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا 1995 کے قانون کے تحت وقف میں رجسٹرڈ جائیدادوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ مہتا نے تب جواب دیا تھا کہ یہ معاملہ قانون میں ہی شامل ہے۔ تب چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ٹھیک ہے لیکن فی الحال وقف بورڈ یا وقف کونسل میں کوئی نئی تقرری نہیں ہونی چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہم اپنے سامنے کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ حالات مکمل طور پر بدلیں، ہم قانون کو نہیں روک رہے۔