سپریم کورٹ کا متنازعہ فلم ادے پور فائلز   سے پابندی ہٹانے سے انکار

نئی دہلی، 16 جولائی :۔

سپریم کورٹ نے  متنازعہ فلم ‘ادے پور فائلز’ کی ریلیز پر دہلی ہائی کورٹ کا عبوری روک اٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔ جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ مرکزی حکومت کو اس معاملے میں فیصلہ لینے دیں، اس کے بعد سماعت ہوگی۔ کیس کی اگلی سماعت 21 جولائی کو ہوگی۔

بدھ کو سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ فلم کے خلاف   اعتراضات پر غور کے لیے بنائی گئی کمیٹی جلد فیصلہ کرے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ نے فلم کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن عرضی گزار کو ہدایت دی ہے کہ وہ مرکزی حکومت کے سامنے اپنے اعتراضات درج کریں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ مرکزی حکومت کو فلم کی ریلیز سے متعلق عبوری فیصلہ لینے کا حق ہے۔ عدالت نے کہا کہ آج کمیٹی کا اجلاس ہونے والا ہے، اس لیے کمیٹی کا فیصلہ آنے دیا جائے۔ سپریم کورٹ نے کنہیا لال قتل کیس کے ملزم محمد جاوید کو بھی کمیٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دے دی۔

14 جولائی کو فلم پروڈیوسر کے وکیل گورو بھاٹیہ نے جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ کے سامنے کیس کی جلد سماعت کی مانگ کی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے درخواست پر جلد سماعت کی یقین دہانی کرائی تھی۔ گورو بھاٹیہ نے فلم کی ریلیز پر عبوری روک لگانے کے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔

واضح رہے کہ 10 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے  جمعیۃ علمائے ہند کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے  متنازعہ فلم ‘ادے پور فائلز’ کی ریلیز پر عبوری روک لگا دی تھی۔ چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے کی سربراہی والی بنچ نے عرضی گزار کو ہدایت دی تھی کہ وہ 14 جولائی تک مرکزی حکومت کے سامنے فلم پر اپنے اعتراضات درج کرائیں۔عدالت نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ درخواست گزار کے اعتراضات موصول ہونے کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر فیصلہ کرے۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت کا فیصلہ آنے تک فلم کی ریلیز پر عبوری روک برقرار رہے گی۔

ہائی کورٹ میں عرضی جمعیۃ علمائے ہند نے داخل کی تھی۔ جمعیۃ  علماءکے وکیل فضیل احمد ایوبی نے درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ فلم کے ٹریلر میں پیغمبر اسلام محمد ؐ اور ان کی ازواج کے خلاف نازیبا تبصرے کیے گئے ہیں۔ فلم کے ٹریلر میں نوپور شرما کا متنازع بیان بھی شامل ہے۔ درخواست میں جمعیۃ نے الزام لگایا تھا کہ فلم کے ٹریلر میں پیغمبر اسلام محمد اور ان کی ازواج کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ ملک کے امن کو خراب کر سکتا ہے۔ عرضی میں کہا گیا کہ فلم میں دیوبند کو بنیاد پرستی کے اڈے کے طور پر دکھایا گیا ہے اور وہاں کے علمائے کرام کے خلاف زہر اگلا گیا ہے۔