سپریم کورٹ کا فیصلہ: متنازعہ زمین پر بنے گا رام مندر، مسجد کے لیے دی جائے گی دوسری جگہ زمین
اہم نکتے
روز سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازعہ پر تاریخی فیصلہ دیا
پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے رامللا کے حق میں فیصلہ سنایا
رام مندر بنانے کے لیے تین ماہ میں ٹرسٹ قائم کرنے کی ہدایت
نئی مسجد بنانے کے لیے پانچ ایکڑ اراضی الگ سے دینے کی ہدایت
آج سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازعہ پر اپنا تاریخی فیصلہ سنا دیا۔ پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے متنازعہ اراضی پر رامللا کے حق میں فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمٰی نے رام مندر بنانے کے لیے حکومت کو تین ماہ میں ٹرسٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔ نیز یہ بھی ہدایات دی ہیں کہ ایک نئی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ اراضی مسلم فریق کو الگ سے دیں۔ اس کے علاوہ عدالت نے نرموہی اکھاڑا اور شیعہ وقف بورڈ کے دعووں کو بھی مسترد کردیا ہے۔ تاہم نرموہی اکھاڑہ کو ٹرسٹ میں جگہ دینے کی اجازت قبول کرلی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے تنازعہ میں ثالث کی حیثیت سے کام کرنے والے ججوں کلیف اللہ، سریرام پانچو اور شری شری روی شنکر کی تعریف کی۔
عدالت نے کہا کہ 02.77 ایکڑ اراضی مرکزی حکومت کے تحت رہے گی۔ نرموہی اکھاڑہ کو بھی مندر کی تعمیر کے لیے بنائے جانے والے ٹرسٹ میں جگہ دی جائے گی۔
مسجد کم انہدام قانون کی خلاف ورزی: سپریم کورٹ
بابری مسجد کے انہدام پر سپریم کورٹ نے کہا کہ مسجد کو مسمار کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ تین ماہ کے اندر اندر مندر کی تعمیر کے لئے ٹرسٹ قائم کرے اور پانچ ایکڑ اراضی مسلم فریق کو الگ سے دے۔ اس سرزمین پر ایک نئی مسجد تعمیر کی جائے گی۔
سنی وقف بورڈ دعویٰ پیش کرنے میں ناکام: عدالت
عدالت نے کہا کہ سنی وقف بورڈ ایودھیا تنازعہ میں اپنا دعویٰ پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ عدالت کے مطابق مسلم فریق یہ ثابت کرنے کے لیے ایسے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے کہ اسے متنازعہ اراضی پر صاف حق حاصل ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ سنی وقف بورڈ کو الگ زمین دی جانی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ مسلمانوں کو نئی مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل زمین دی جائے۔
مسلمان اندر نماز پڑھتے تھے اور ہندو بیرونی احاطے میں پوجا کرتے تھے: عدالت
یہ بات واضح ہے کہ مسلمان اندر ہی اندر نماز پڑھتے تھے اور ہندو بیرونی احاطے میں پوجا کرتے تھے۔
تاہم ہندوؤں نے بھی حرمت کے تقدس کا دعوی کیا تھا۔ جبکہ مسلمان مسجد سے باہر نہیں نکلے تھے۔
عدالت نے کہا کہ رام جنم بھومی ایک قانونی شخص نہیں ہے
عدالت نے یہ بھی کہا کہ رام جنم بھومی وہ شخص نہیں ہے جو قانون کے دائرے میں آتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ فیصلے ایمان کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے۔ یہ تنازعہ کو حل کرنے کے لیے اشارے ہوسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ برطانوی راج کے دوران رام چبوترہ اور سیتا رسوئی میں پوجا ہوا کرتی تھی۔ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ متنازعہ اراضی کے بیرونی حصے پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔
نرموہی اکھاڑہ نہ خدمت گار نہ عقیدت مند: عدالت
سپریم کورٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ نرموہی اکھاڑہ نہ تو خدمت گار ہے اور نہ ہی رامللا کا عقیدت مند ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں بنچ نے کہا کہ ‘حد’ کی وجہ سے نرموہی اکھاڑے کا دعویٰ مسترد کردیا گیا۔
مسجد خالی اراضی پر نہیں تھی: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کہا کہ بابری مسجد خالی زمین پر نہیں بنائی گئی تھی۔ اے ایس آئی کے مطابق مندر کی ساخت کے اوپر بنایا گیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ ہندو اسے بھگوان رام کی جائے پیدائش سمجھتے ہیں۔ ان کے اپنے مذہبی جذبات ہیں۔ مسلمان اسے مسجد کہتے ہیں۔ ہندوؤں کا خیال ہے کہ بھگوان رام مرکزی گنبد کے نیچے پیدا ہوئے تھے۔ یہ ذاتی عقیدے کی بات ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توازن قائم کرنا ہوگا
چیف جسٹس نے فیصلے کو پڑھتے ہوئے کہا کہ عدالت کو عوام کی عقیدت کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ عدالت کو توازن رکھنا چاہیے۔
نرموہی اکھاڑہ کے دعوے پر فیصلہ دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے محکمۂ آثار قدیمہ کی رپورٹ پر انحصار کیا۔ عدالت نے کہا کہ اس پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ نیز محکمۂ آثار قدیمہ کی دریافت کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔
شیعہ وقف بورڈ کا دعوی مسترد
چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم شیعہ وقف بورڈ کی خصوصی درخواست کو مسترد کرتے ہیں۔ شیعہ وقف بورڈ نے 1946 میں فیض آباد عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ بابری مسجد میر باقی نے تعمیر کروائی تھی۔ عدالت کے لیے مذہب کے میدان میں جانا درست نہیں ہوگا۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ محصولات کے ریکارڈ میں متنازعہ اراضی سرکاری اراضی کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔