سپریم کورٹ :وقف قانون میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر فوری سماعت کا مطالبہ

نئی دہلی، 07 اپریل :

وقف ترمیمی بل اب لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے پاس ہونے کے بعد صدر جمہوریہ دروپدی مرموکے دستخط کے بعد قانون بن چکا ہے۔اس قانون کے خلاف متعدد درخواستیں سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہیں ۔جس پر آج سپریم کورٹ میں فوری سماعت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جمعیة علماء ہند کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے پیر کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ کے سامنے وقف ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر جلد سماعت کا مطالبہ کیا۔ پھر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست کی جلد سماعت کے حوالے سے نظام موجود ہے۔ آپ کو اسے یہاں ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی۔  اب تک تقریباً ایک درجن عرضیاں دائر کی جا چکی ہیں۔

اس معاملے میں دہلی کے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان، کانگریس پارٹی کے ایم پی محمد جاوید اور اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی کے علاوہ کئی عرضی گزاروں نے عرضیاں داخل کی ہیں۔ درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ وقف قانون میں ترمیم کرکے مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی خودمختاری پر حملہ کیا گیا ہے۔

درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ وقف ترمیمی قانون اقلیتوں کے مسلمانوں کے مذہبی اور خیراتی اداروں کو سنبھالنے کے حقوق کو کمزور کرتا ہے۔ درخواستوں میں اس ترمیم کو مسلم کمیونٹی کے خلاف امتیازی قرار دیا گیا ہے۔

کانگریس ایم پی کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ تبدیلی مسلم کمیونٹی کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عرضی میں کہا گیا کہ وقف ترمیمی قانون وقف املاک کے انتظام پر من مانی پابندیاں عائد کرتا ہے اور مسلم کمیونٹی کی مذہبی خودمختاری کو مجروح کرتا ہے۔اسد الدین اویسی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔