سپریم کورٹ نے جسٹس یشونت ورما کی عرضی کو مسترد کر دیا
عدالت نے کہا کہ جسٹس ورما کی درخواست پر سماعت نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ پہلے ہی اندرونی تحقیقاتی پینل کے سامنے پیش ہو چکے ہیں

نئی دہلی، 7 اگست :۔
سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس یشونت ورما کے خلاف داخلی تحقیقاتی پینل کی رپورٹ کے خلاف دائر درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ جسٹس دیپانکر دتہ کی سربراہی میں بنچ نے درخواست کو خارج کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ جسٹس ورما کی درخواست پر سماعت نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ پہلے ہی اندرونی تحقیقاتی پینل کے سامنے پیش ہو چکے ہیں اور اب تحقیقاتی پینل کے اختیار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ عدالت نے 30 جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
اس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے جسٹس یشونت ورما سے کہا کہ آپ کا طرز عمل قابل اعتبار نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ آپ اندرونی تحقیقاتی پینل کے سامنے کیوں پیش ہوئے؟ آپ نے اسے چیلنج کیوں نہیں کیا۔ آپ کو پہلے اندرونی تحقیقاتی پینل کی رپورٹ کو چیلنج کرنا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جسٹس ورما بھی صدر اور وزیر اعظم کو رپورٹ بھیجنے کی مخالفت کر رہے ہیں، صدر ججوں کی تقرری کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر صدر آئینی سربراہ ہیں تو انہیں معلومات دینے کی مخالفت کیوں؟ سپریم کورٹ کے سوالات پر جسٹس ورما کے وکیل کپل سبل نے کہا تھا کہ وہ صدر کو معلومات دینے کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ان سے گھر سے برامد ہوئی رقم کو کیوں سمجھا گیا کہ یہ رقم جسٹس ورما کی ہے؟ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی کہ یہ رقم کس کی ہے۔ درخواست میں جسٹس ورما نے اندرونی تحقیقاتی پینل کی رپورٹ کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ درخواست میں اس وقت کے چیف سنجیو کھنہ کی پارلیمنٹ سے ان کا مواخذہ کرنے پر زور دینے کی سفارش کو منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔14 مارچ کو جسٹس یشونت ورما کے گھر سے نقدی ملنے کے بعد سپریم کورٹ نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا۔ صدر جمہوریہ نے جسٹس ورما کا دہلی ہائی کورٹ سے الہ آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ کر دیا۔
22 مارچ کو سپریم کورٹ نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی بنانے کا حکم دیا۔ اس تحقیقاتی کمیٹی میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیل ناگو، ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جی ایس سندھاوالیا اور کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس انو شیورامن شامل تھے۔