سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی پر پھر اٹھائے سوال
بنچ نے گجرات حکومت سے پوچھا کہ کس طرح اتھارٹی نے مجرموں کی رہائی پر آزادانہ صوابدید کا استعمال کیا
نئی دہلی، 25 اگست:
سپریم کورٹ میں بلقیس بانوں کے مجرموں کی وقت سے پہلے رہائی کے معاملے میں سماعت چل رہی ہے ۔اس دوران سپریم کورٹ نے حکومت سے رہائی پر تیکھے سوال کھڑے کئے ہیں ۔ جمعرات کو بھی سپریم کورٹ میں بلقیس بانو کیس کے مجرموں کی قبل از وقت رہائی پر پھر حکومت سے تیکھے سوال کئے گئے۔ جسٹس بی وی ناگرتنا کی سربراہی والی بنچ نے گجرات حکومت سے پوچھا کہ کس طرح اتھارٹی نے مجرموں کی رہائی پر آزادانہ صوابدید کا استعمال کیا۔ کیس کی اگلی سماعت 31 اگست کو ہوگی۔
مجرموں کی رہائی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے دوران، عدالت نے گجرات حکومت سے پوچھا کہ رہائی دینے کے لیے متفقہ رائے کیسے بنی؟ متفقہ رائے بنانے میں بھی آزادانہ صوابدید کا استعمال ضروری ہے۔ عدالت نے کہا کہ جامع وجوہات سے اس کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ جیلوں میں بھیڑ بھاڑ پر سوال اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان ان تمام قیدیوں کے لیے اصلاحی اصول بنائے جو اپنی 14 سال کی سزا پوری کر چکے ہیں۔
آج کی سماعت کے دوران، بلقیس کے مجرموں میں سے ایک رادھےشیام کے وکیل نے اپنے موکل کے اچھے اخلاق کو ثابت کرنے کے لیے کہا کہ ان کا موکل رہائی کے بعد قانون کی مشق کر رہا ہے۔ وہ نچلی عدالت میں موٹر وہیکل ایکسیڈنٹ کلیم کے وکیل ہیں۔ اس پر عدالت حیران رہ گئی۔ جسٹس بی وی ناگرتنا نے پوچھا کہ یہ کیسے ہے؟ کیا سزا یافتہ شخص بطور وکیل پریکٹس کر سکتا ہے؟ تب رادھے شیام کے وکیل نے کہا کہ وہ پہلے ہی اپنی سزا کاٹ چکے ہیں۔ پھر عدالت نے کہا کہ نہیں، مجرم ابھی تک جیل میں ہے ۔ اسے سزا سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا ہے۔
بلقیس کے مجرموں میں سے ایک کے وکیل وپن جوشی نے دلیل دی کہ ریاستی حکومت بلقیس کے مجرموں کی رہائی کے لیے جواب دے گی۔ آج تک بلقیس کو جتنا معاوضہ ملا ہے کسی اور ریپ متاثرہ کو نہیں ملا۔ تاہم، بلقیس کے ساتھ جو ہوا اس کا کوئی معاوضہ ادا نہیں کر سکتا۔
اس سے پہلے بھی 17 اگست کو عدالت نے گجرات حکومت سے سخت لہجے میں پوچھا تھا کہ رہائی کی اس پالیسی کا فائدہ صرف بلقیس کے مجرموں کو ہی کیوں دیا گیا۔ جیل قیدیوں سے بھری ہوئی ہے۔ باقی مجرموں کو اصلاح کا موقع کیوں نہیں دیا گیا۔ عدالت نے گجرات حکومت سے پوچھا تھا کہ نئی پالیسی کے تحت کتنے مجرموں کو رہا کیا گیا۔ عدالت نے پوچھا تھا کہ بلقیس کے مجرموں کے لیے ایڈوائزری کمیٹی کس بنیاد پر بنائی گئی۔ عدالت نے پوچھا تھا کہ جب گودھرا کی عدالت میں مقدمہ نہیں چلا تو پھر وہاں کے جج کی رائے کیوں مانگی گئی۔ درخواست میں گجرات حکومت کے قصورواروں کی رہائی کے حکم کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔