سپریم کورٹ میں اگلے مہینے پلیسز آف ورشپ ایکٹ سے متعلق تمام درخواستوں پر سماعت
نئی دہلی، 2 جنوری :۔
سپریم کورٹ نے آج انتہائی موضوع بحث ایکٹ عبادت گاہوں سے متعلق قانون ، پلیسیز آف ورشپ ایکٹ سے متعلق اہم فیصلہ سنایا ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی کی عرضی کو بھی ایکٹ پر دیگر زیر التوا عرضیوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے دیگر درخواستوں کے ساتھ اس درخواست کی 17 فروری کو سماعت کرنے کا حکم دیا۔
اسد الدین اویسی نے ملک میں مختلف مذہبی مقامات پر دعووں پر جاری عدالتی لڑائیوں کے درمیان اس ایکٹ کے موثر نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ اویسی کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ نظام پاشا نے مذہبی مقامات کے سروے کی مخالفت کی ہے۔ اس سے پہلے 12 دسمبر 2024 کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کوئی بھی عدالت مندر-مسجد سے متعلق کسی بھی نئے کیس کو اس وقت تک قبول نہیں کرے گی جب تک کہ عبادت گاہوں کے قانون کی سماعت نہیں ہو جاتی۔
سپریم کورٹ میں مداخلت کی کئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں سی پی آئی ایم، انڈین یونین مسلم لیگ، این سی پی شرد پوار گروپ کے ایم ایل اے جتیندر اوہاڑ، آر جے ڈی ایم پی منوج کمار جھا، ایم پی تھول تھرومالاوان کے علاوہ وارانسی کی گیانواپی مسجد مینجمنٹ کمیٹی اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد مینجمنٹ کمیٹی نے مداخلت کی درخواست دائر کی ہے جس میں اس ایکٹ کی تائید کی گئی ہے۔
اس معاملے میں 9 ستمبر 2022 کو عدالت نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت نے جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے قانون کی حمایت میں دائر درخواست پر بھی نوٹس جاری کیا تھا۔ہندو فریق اس ایکٹ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہاہے۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں مساجد اور درگاہوں میں مندروں کی تلاش کے درمیان پلیسز آف ورشپ ایکٹ موضوع بحث رہا ہے۔ کیونکہ تمام مساجد کے ہندو مندر ہونے کے دعوے کرتے ہوئے ملک بھر میں متعدد درخواستیں عدالت میں دی گئیں اور عدالت نے ان درخواستوں پر ہندو فریق کے دعوے کے مطابق سماعت کیلئے قبول کر لی ہیں ایسی صورت میں عبادت گاہ ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی تھی جس پر متعدد درخواست دہندوں نے سپریم کورٹ میں اس ایکٹ کو موثر بنانے کی درخواست دی ہے۔