سپریم کورٹ   مسجد میں’جے شری رام‘کے نعرے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے، کرناٹک حکومت سے جواب طلب

نئی دہلی،18 دسمبر :۔

مسجد میں جے شری رام کا نعرہ لگانے کا معاملہ پھر سرخیوں میں ہے۔ سپریم کورٹ   میں عرضی دائر کی گئی ہے جس میں اس بات پر غور  کیا جا رہا ہے کہ کیا مسجد کے اندر "جے شری رام” کا نعرہ لگانا جرم ہے۔خیال رہے کہ اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے جس  میں   دو افراد کے خلاف الزامات کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ کیرتھن کمار اور سچن کمار نامی افراد پر 13 ستمبر 2023 کو دکشن کنڑ کی بدریا جمعہ مسجد کے اندر نعرہ لگانے اور مسجد کے نگراں کو دھمکانے کا الزام  عائد کیاگیاتھا۔

18 دسمبر 2024 کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے سوال کیا کہ کیا مسجد کے اندر مذہبی نعرہ لگانے کو جرم سمجھا جا سکتا ہے۔ شکایت کنندہ کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دیودت کامت نے دلیل دی کہ اس طرح کے اقدامات تعزیرات ہند کی دفعہ 153A کے تحت فرقہ وارانہ انتشار کو ہوا دے سکتے ہیں۔ عدالت نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ ملزمان کی شناخت کیسے کی گئی، کامت نے ثبوت کے طور پر سی سی ٹی وی فوٹیج اور پولیس تحقیقات کا حوالہ دیا۔

یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب شکایت کنندہ حیدر علی نے 24 ستمبر 2023 کو پولیس میں شکایت درج کروائی، جس میں الزام لگایا گیا کہ   دونوں افراد نے مسجد میں "جئے شری رام” کا نعرہ لگایا اور مسلمانوں کو دھمکیاں دیں۔ پولیس نے بعد میں کمار اور سچن کو گرفتار کیا، جنہیں 29 ستمبر 2023 کو ضمانت مل گئی تھی۔ 29 نومبر 2023 کو ہائی کورٹ نے کارروائی پر روک لگا دی، اور 13 ستمبر 2024 کو یہ کہتے ہوئے الزامات کو مسترد کر دیا کہ اس واقعے سے مذہبی ہم آہنگی کو خطرہ نہیں ہے۔

سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں، حیدر علی نے دلیل دی کہ ہائی کورٹ کے فیصلے نے فرقہ وارانہ کشیدگی کے امکانات کو نظر انداز کیا اور  تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ واقعہ میں  دھمکیاں شامل ہیں، جس کی مناسب تحقیقات کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ نے عرضی گزار کو ہدایت دی ہے کہ وہ کرناٹک حکومت کو عرضی کی ایک کاپی پیش کرے اور جنوری 2025 میں اس کیس کی دوبارہ سماعت  ہوگی۔