سپریم کورٹ مذہبی تبدیلی مخالف قوانین کی آئینی حیثیت کی جانچ پر راضی، اترپردیش اور اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کیے
نئی دہلی، جنوری 6: لائیو لاء کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے آج اتر پردیش اور اتراکھنڈ حکومت کے ذریعہ نافذ شدہ مذہبی تبدیلی مخالف قانون کی آئینی صداقت کی جانچ کرنے پر اتفاق کیا، لیکن اس متنازعہ قانون سازی کو روکنے سے انکار کردیا۔
عدالت نے قوانین کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر دونوں ریاستوں کو نوٹس جاری کردیے۔
اترپردیش حکومت نے نومبر میں غیر قانونی تبدیلیِ مذہب آرڈیننس 2020 کو منظور کیا تھا۔ تب سے پولیس نے اس قانون کے تحت ایک ماہ کے اندر 54 مسلمان مردوں کو گرفتار کیا۔ اتراکھنڈ فریڈم آف ریلیجنس ایکٹ 2018 بھی شادی کے لیے مذہبی تبدیلی پر پابندی لگاتا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے اور جسٹس وی رام سبرامنیم اور اے ایس بوپنا پر مشتمل بنچ وکیل وشال ٹھاکرے اور سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کررہا تھا۔
سینئر ایڈوکیٹ چندر ادے سنگھ نے ، جنھوں نے سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس کی نمائندگی کی، عدالت کو بتایا کہ ان قوانین کی دفعات ’’جابرانہ‘‘ ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ بین المذاہب شادی کرنے کے لیے پیشگی اجازت حاصل کرنے کا تقاضا ’’مکروہ‘‘ ہے۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق وکیل نے یہ بھی کہا کہ ’’مشتعل ہجوم‘‘ غیرقانونی طور پر شادیوں سے لوگوں کو اٹھا رہا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قوانین معاشرے میں تفریق پیدا کرتے ہیں۔ انھوں نے پولیس کو ضرورت سے زیادہ طاقت کی فراہمی پر بھی سوال اٹھائے۔
لائیو لاء کے مطابق چیف جسٹس نے ابتدائی طور پر درخواست گزاروں سے الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کو کہا، لیکن وکیلوں کی جانب سے انھیں مطلع کیا گیا کہ وہ دونوں ریاستوں کے قوانین کو للکار رہے ہیں۔ درخواست گزاروں کے وکلا نے مزید کہا کہ مدھیہ پردیش اور ہریانہ جیسی مزید ریاستوں میں بھی اسی طرح کے قانون نافذ کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ جس کے بعد عدالت نے ان قوانین کی جانچ پر اتفاق کیا اور دونوں ریاستوں کو نوٹس جاری کیے۔
واضح رہے کہ یہ قوانین ہندوتوا گروپوں کی من گڑھت اصطلاح ’’لو جہاد‘‘ کو روکنے کے مقصد سے بنائے گئے ہیں، جس کے تحت مسلمان مردوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ شادی کے نام پر ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔
تاہم مرکزی حکومت نے فروری میں لوک سبھا کو بتایا تھا کہ مرکزی ایجنسیوں میں سے کسی کو بھی ’’لو جہاد‘‘ کے معاملے کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ قومی تفتیشی ایجنسی اور کرناٹک کے فوجداری تفتیشی محکمہ کی تحقیقات میں بھی اس مبینہ سازش کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ خواتین کے قومی کمیشن کے پاس بھی ’’لو جہاد‘‘ کے بارے میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔