سپریم کورٹ سے منیش سسودیا کو راحت ،ڈیڑ سال بعد ملی ضمانت
نچلی عدالتوں کو عدالت عظمیٰ کی تنبیہ، عدالتی عمل کو ہی سزا نہ بنایا جائے ،530 دن جیل میں گزارنے کی بعد ملی ضمانت کو عام آدمی پارٹی نےسچائی کی جیت قرار دیا
نئی دہلی،09 اگست :۔
530 دن یعنی تقریباً ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے جیل میں قید دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم منیش سسودیا کو سپریم کورٹ سے راحت ملی ہے۔ شراب پالیسی معاملے میں سپریم کورٹ نے ضمانت منظور کر لی ہے۔ عدالت نے شرائط عائد کرتے ہوئے انہیں اپنا پاسپورٹ حوالے کرنے اور گواہوں کو متاثر نہ کرنے کی ہدایت کی۔ اب سسودیا 16 ماہ بعد جیل سے باہر آ سکتے ہیں۔
اس موقع پر نچلی عدالتوں کی اس سلسلے میں کارروائی پر سپریم کورٹ تنقید کہ اور کہا کہ نچلی عدالت اور ہائی کورٹ اکثر یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ضمانت کو قاعدہ اور جیل کو استثنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں ضمانت کی درخواستیں سپریم کورٹ میں آتی ہیں۔ عدالتی عمل کو ہی سزا نہ بنایا جائے۔ ملزم کی معاشرے میں گہری بنیاد ہے۔ اس کے فرار ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ نچلی عدالت ضمانت کی شرائط طے کر سکتی ہیں۔ شواہد کو تلف کرنے کے امکان پر بھی شرائط رکھی جائیں۔
فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ای ڈی کے وکیل نے کہا کہ 3 جولائی تک تحقیقات مکمل کریں۔ یہ اکتوبر 2023 میں سپریم کورٹ کو دی گئی 6-8 ماہ کی حد سے زیادہ ہے۔ اس تاخیر کی وجہ سے نچلی عدالت میں مقدمے کی سماعت شروع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ذاتی آزادی ایک بنیادی حق ہے۔ مناسب وجہ کے بغیر اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔
دریں اثنا عام آدمی پارٹی نے منیش سسودیا کی ضمانت کو سچائی کی جیت سے تعبیر کیا ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے ایکس پر لکھا ’’آج سچ کی جیت ہوئی ہے۔ اس بات میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ ہمارے لیڈروں کو زبردستی جیلوں میں رکھا گیا۔ منیش سسودیا کو سازش کے الزام میں 17 ماہ تک جیل میں رکھا گیا تھا۔ کیا بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی منیش سسودیا کے ان 17 مہینوں کا حساب دیں گے؟‘‘
مزید نے کہا ’’منیش سسودیا نے یہ 17 مہینے دہلی کے اسکولوں کی تعمیر میں صرف کیے ہوتے لیکن بی جے پی نے انہیں برباد کردیا۔ میں معزز سپریم کورٹ کو نمن کروں گا۔ عدالت کے اس فیصلے سے دہلی کا ہر شہری خوش ہے۔ اس کے ساتھ مجھے امید ہے کہ وزیر اعلی اروند کیجریوال اور ستیندر جین کو بھی جلد انصاف ملے گا اور وہ بھی باہر آئیں گے۔ میں سپریم کورٹ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘