سو سال سے زیادہ عرصے سے صحت خدمات انجام دینے والا اسپتال شدت پسندوں کے عتاب کا شکار
اتر پردیش کے فتح پور میں 114 سال پرانے کرسچن اسپتال کوکچھ دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں نے تبدیلی مذہب کا الزام لگا کر بند کر ادیا
لکھنؤ،12 مارچ :۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں اقلیتوں کے خلاف ماحول کشیدہ ہو گیا ہے ،خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائی تنظیموں ،اور شخصیات کو تبدیلی مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر پابند سلاسل کیا گیا ہے ۔متعدد رفاہی او ر خدمت خلق کے لئے وقف اداروں کو بائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کے عتاب کا شکار ہونا پڑا ہے ۔متعدد مقامات پر مسجدوں اور چرچوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور پروگراموں کو ہنگامہ آرائی کر کے بند کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ایسا ہی ایک معاملہ اتر پردیش کے فتح پور میں پیش آیا ہے جہاں ایک کرسچن اسپتال کو تبدیلی مذہب کا الزام عائد کر کے بند کرنےپر مجبور کر دیا گیا ہے ۔یہ استپال تقریبا 114 برسوں سے عوام کی صحت خدمات کا علاقے میں واحد وسیلہ تھا۔
رپورٹ کے مطابق فتح پور میں ایوینجلیکل چرچ آف انڈیا (ای سی آئی ) کے زیر انتظام براڈویل کرسچن اسپتال کو "جبراً تبدیلی مذہب کے جھوٹے الزامات کی وجہ سے جسمانی، ذہنی اور جذباتی استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہے”، ادارے کے سینئر انتظامی افسر سوجیت ورگیس تھامس نے انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔
رپورٹ کے مطابق کچھ ہندو قوم پرست گروپوں نے اسپتال پر جبری مذہب تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا ، حالانکہ اسپتال حکام کے جانب سے مسلسل اس بات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
ادارے کے سینئر انتظامی افسر سوجیت ورگیس تھامس نے میڈیا کو "ایک کھلے خط” میں دعویٰ کیا کہ سماجی ترقی اور صحت کی دیکھ بھال میں وقف خدمات فراہم کرنے والا اسپتال گزشتہ 114 سالوں سے مقامی لوگوں کے لئے صحت خدمات کا ایک "اہم ذریعہ” بنا ہوا ہے۔
خط میں انہوں نے لکھا کہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے،اسپتال، اس کے عملے اور اس کے انتظامیہ نے مقامی برادری کے ساتھ ایک برادرانہ تعلقات قائم کیا ہے ۔یہ تعلق ایک ڈاکٹر اور مریض سے اوپر اٹھ کررہا ہے ۔تھامس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس گہرے رشتے کے باوجود اس ادارے کو "اقلیتی ادارہ ہونے کی وجہ سے، جسمانی اور جذباتی دونوں طرح سے بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ ادارے کی موجودہ مشکلات کا ذمہ دار سیاسی طور پر محرک مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ غیر حساس اور متعصب پولیس افسران کو بھی قراردیتے ہیں۔
انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مشکلات کا آغاز 14 اپریل 2022 کو ہوا، جب تقریباً 100 مذہبی انتہا پسند ہتھیاروں کے ساتھ چرچ میں گھس آئے جہاں ایک پروگرام چل رہا تھا جس میں اسپتال کے عملے کے ساتھ ساتھ وہاں مریض بھی بڑی تعداد میں شریک تھے۔انہوں نے چرچ میں داخلہ ہونے کے بعد ہنگامہ آرائی شروع کر دی اور وہاں موجود لوگوں سے زبر دستی "جئے شری رام” کا نعرہ لگوانے لگے اور خواتین اور بچوں سمیت انہیں چرچ کے اندر بند کر دیا اور پولیس کو فون کر دیا۔
تھامس کے خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ پولیس نے عیسائیوں کو حراست میں لیا اور 90 افراد کو زبردستی عیسائی بنانے کے الزام پر 35 کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی۔ ان پر انڈین پینل کوڈ کے تحت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ، جس میں ایک اتر پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2021 کے تحت بھی شامل ہے۔ ہندوتوا تنظیم کے ایک رہنما کی طرف سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پادری وجے مسیح نے زبردستی تبدیلی مذہب کے الزامات کا زبانی طور پر اعتراف کیا تھا۔تھامس نے الزام لگایا کہ پولیس مبینہ طور پر مذہب تبدیل کرنے والوں سے کراس چیکنگ کرکے الزامات کی تصدیق کرنے میں ناکام رہی۔
کیونکہ اس پروگرام میں شرکت کرنے والے تمام لوگوں کے آدھار کارڈ کی جانچ کی گئی اور اس میں سے کوئی بھی غیر مسیحی نہیں تھا۔جبکہ ہندو شدت پسندوں نے الزام عائد کیا کہ جن 90 لوگوں کا مذہب تبدیل کیا گیا وہ پچھلے دروازے سے نکل گئے اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جبکہ شدت پسندوں نے دونو دروازوں کو باہر سے لاک کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں جب اگلے دن، 15 اپریل، 2022 کو، پادری کی بیوی پریتی مسیح نے حملہ آوروں کے خلاف عیسائیوں کو ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے لیے جوابی شکایت درج کرائی، لیکن پولیس نے مبینہ طور پر ایک ہندو تنظیم کے دباؤ پر ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔تھامس کا کہنا ہے کہ چھ ماہ بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس کیس کے سلسلے میں نئے شواہد ملے ہیں۔
13 اکتوبر 2022 کی رات پولیس کی ایک ٹیم زبردستی اسپتال میں داخل ہوئی ،مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ڈاکٹروں اور اسپتال عملے کے ساتھ زور و زبردستی کی گئی لیکن اسٹیشن انچارج کو شکایت پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اسپتال منتظمین کا کہنا ہے کہ برابر پولیس کی جانب سے اسپتال انتظامیہ کو اس کیس کے حوالے سے حراساں کیا جاتا رہا۔اسپتال کو 2 جنوری اور 18 جنوری کو ایک بار پھر پولیس کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، جب وہ کمیونٹی ہیلتھ سینٹر اوراسپتال کے دفاتر میں گھس گئے اور کئی کمپیوٹروں کے ساتھ ساتھ فائیلوں کو ضبط کر لیا گیا۔ان تمام کارروائیوں پر تھامس افسوس کا اظہار کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ کم از کم ایسے اداروں کے تحفظ کے لئے کوششیں کرنی چاہئے ۔اسپتال نے 8 فروری کو قومی اقلیتی کمیشن کو ایک چار نکاتی میمورنڈم پیش کیا تاکہ اس معاملے کو دیکھیں اور ہراساں کیے گئے عیسائیوں کو انصاف دلائیں۔
واضح رہے کہ فتح پور کا یہ کوئی واحد ایسا واقعہ نہیں ہے جہاں عیسائیوں کے ذریعہ چلائے جا رہے اداروں پر تبدیلی مذہب کا الزام عائد کیا جا رہا ہے بلکہ آئے دن ملک میں کہیں نہ کہیں ایسے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں عیسائیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مشنریوں کو تبدیلی مذہب کا الزام لگا کر حراساں کیا جا رہا ہے ۔دہلی میں پرگتی میدان میں چل رہےکتاب میلہ کے دوران مفت بائبل کی تقیسم پر بھی ہنگامہ آرائی کی گئی مفت بائبل تقسیم کو بند کرا دیا گیا ۔