سومناتھ انہدام معاملہ :سپریم کورٹ نےزمین تیسرے فریق کو نہ دیئے جانے کی یقین دہانی کرائی

سماعت کے دوران سینئر وکیل کپل سبل نے اس کارروائی کو عصبیت پر مبنی  اور مساجد اور درگاہوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی کوانتہائی شرمناک  قرار دیا

نئی دہلی25 اکتوبر:

گجرات  کے سومناتھ میں قدیم مساجد ،قبرستان اور درگاہوں کی انہدامی کارروائی پر جمعہ کو سپریم کورٹ نے سماعت کی ۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حکومتِ گجرات کی یقین دہانی کو ریکارڈ کرتے ہوئے کہا کہ اگلی سماعت تک یہ زمین حکومت کے پاس رہے گی اور تیسرے فریق کو الاٹ نہیں کی جائے گی۔

عدالت  عظمیٰ جمعیۃ علما ء گجرات اور اولیائے دین کمیٹی کی عرضی(   ایس ایل پی (سی) نمبر 24515/2024)پر ا سماعت کر رہی تھی ۔خیال رہے کہ   سومناتھ میں 9 مساجد اور درگاہوں  اور مسلمانوں کی رہائش گاہوں کو   اچانک غیر قانونی قرار دیتے ہوئے راتوں رات گزشتہ 28 ستمبر کو منہدم کر دیا گیا تھا جس پر پورے ملک کے مسلمانوں میں ناراضگی پائی جا رہی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ حالیہ برسوں میں اتنے بڑےے پیمانے پر کہیں بھی انہدامی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

ریلیز کے مطابق  جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی ویشواناتھن پر مشتمل بنچ نے اس مقدمہ کی سماعت کی ۔ اس وقت سپریم کورٹ میں سناٹا چھاگیا جب کپل سبل اور دیگر وکلاء نے عدالت کے سامنے دلائل پیش کیے کہ ان قدیم عبادت گاہوں کو بلاوجہ نشانہ بنایا گیا ہےجب کہ دوسری طرف وہاں موجودمندر کو چھوڑ دیا گیا۔ کپل سبل نے اس کارروائی کو عصبیت پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مساجد اور درگاہوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی کی گئی ہے جو انتہائی شرمناک ہے۔دوسرے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کے پاس 1903 میں کی دستاویزات موجود ہیں جو اس زمین کے وقف ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ ان قدیم عبادت گاہوں کو راتوں رات بغیر پیشگی اطلاع کے منہدم کیا گیا، جو قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

کپل سبل کے دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس گوائی نے زبانی طور پر کہا کہ اگر ضروری ہوا تو عدالت ان عبادت گاہوں کی دوبارہ بحالی کا بھی حکم دے سکتی ہے۔ کپل سبل نے بنچ کی توجہ 2015 میں ضلعی کلکٹر کے جاری کردہ ایک حکم نامہ کی طرف دلائی جس میں کہا گیا تھا کہ زیر بحث زمینیں صرف سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا کہ موجودہ کوشش ان زمینوں کو تیسرے فریق کو الاٹ کرنے کی ہے۔ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ وہ یہ بیان دینے کے لیے تیار ہیں کہ کسی کو الاٹ نہیں کی جائے گی۔ ان کے بیان کو ریکارڈ کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو اس تناظر میں ہمیں کوئی اضافی عبوری حکم جاری کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔اگلی سماعت کے لیے 11؍ نومبر کی تاریخ مقرر کی جاتی ہے ۔

عدالت میں جمعیۃ کی طرف سے جو وکیل پیش ہوئے ان میں کپل سبل، حذیفہ احمدی، اعجاز مقبول، طاہر حکیم اور ثاقب انصاری شامل تھے، اس موقع پر جمعیۃ علماء گجرات کے ناظم اعلی پروفیسر نثار احمد انصاری اور دیگر اہم ذمہ داران اویس بھائی شیخانی، تبریز بھائی بہارونی بھی عدالت میں موجود تھے۔

عدالت کی آج کی پیش رفت پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ قدیم عبادت گاہیں ہمارے ملک کی تہذیب و وراثت کا حصہ ہیں، جنہیں محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ سومناتھ میں جو کچھ ہوا ہے ،اس سے پورے ملک میں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔حکومتوں کو کسی کا بھی گھر اس طرح گرانا نہیں چاہیے کہ وہ انصاف کے بجائے ظلم کی تعریف میں شامل ہوجائے ،جہاں تک عباد ت گاہوں کامعاملہ ہے تو ان میں مزید حساسیت وابستہ ہے ۔