سنی اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی گولڈن جبلی پر لاکھوں مسلم نوجوانوں کا اجتماع
ایس ایس ایف کے روح رواں شیخ ابو بکر نے ہندوتو پروپیگنڈہ پر مبنی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری پرپابندی کا مطالبہ کیا
کنور،یکم مئی :۔
کیرالہ میں آل انڈیا سنی جمعیت العلماء سے وابستہ مسلم نوجوانوں کی معروف ،معتبر اور متحرک تنظیم سنی اسٹوڈینٹس فیڈریشن(ایس ایس ایف) اپنے قیام کے پچاس سال مکمل کر چکی ہے ۔گزشتہ روز ہفتہ کو پچاس برس مکمل ہونے پر گولڈن جبلی تقریبا ت کا اہتمام کیا گیا اس موقع پر کنور میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مسلم نوجوانوں کا اجتماع ہوا ،کنور کی سڑکوں پر طلبہ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آیا۔
واضح رہے کہ سنی اسٹوڈینٹس فیڈریشن( ایس ایس ایف) کی تشکیل کیرالہ میں 29 اپریل 1973 کو شیخ ابو بکر احمد کی سر پرستی میں ہوئی تھی۔یہ کیرالہ میں مسلمانوں کی ایک معروف تنظیم آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء سے وابستہ ہے۔
مکتوب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کنور کے جواہر میونسپل اسٹیڈیم میں ہونے والی عوامی کانفرنس میں دو لاکھ سے زیادہ طلباء اور نوجوانوں نے شرکت کی۔
مسلم اسکالر اور طلبہ تنظیم کے سرپرست شیخ ابو بکر احمد نے اس موقع پر کہا کہ "یہ ملک کی سب سے بڑی طلبہ اسمبلی ہے، جو اخلاق مند اور توانائی سے بھر پور طلبہ پر مشمل ہے جو سیکولر اقدار اور اخلاقی اصولوں کے ساتھ قوم کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شیخ ابو بکر احمد نے چھ روزہ کانفرنس کے ویلڈیکٹورین سیشن کا افتتاح کرتے ہوئے ریاست اور مرکزی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ نفرت اور فرقہ وارانہ انتشار کے خلاف کام کریں۔
ایس ایس ایف کے سر پرست اور روح رواں شیخ احمد نے اس موقع پر کیرالہ میں فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے کی ہندتو بریگیڈ کی کوششوں پر تنقید کی ۔حالیہ دنوں میں ہندوتو پروپیگنڈہ پر مبنی متنازعہ فلم ‘دی کیرالہ اسٹوری’ پر پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا۔یاد رہے کہ اس فلم میں منصوبہ بند طریقے سے جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنوبی ہندوستانی ریاست کیرالہ’لو جہاد’ کا مرکز ہے۔کانفرنس کا تھیم ’’نمل انڈین جنتا‘‘ تھا جس کا ترجمہ ’’ہم، ہندوستان کے لوگ‘‘ ہے۔
مکتوب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایس ایس ایف کی گولڈن جبلی کانفرنس کےایک انوکھا نظارہ دیکھنے کو ملا جہاں کانفرنس کے مرکزی دروازے کو نئی دہلی میں واقع معروف یونیور سٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مرکزی دروازے بابِ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح ڈیزائن کیا گیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ در اصل اس کے پیچھے ہندوتو نواز حکمراں کے اس فیصلے پر رد عمل تھا جس میں نام نہاد قوم پرست حکومت کے ذریعہ اسکول کی نصابی کتابوں سے عظیم مسلم شخصیت اور مجاہد آزادی مولانا آزاد کے کارناموں کو خارج کر دیا گیا ہے ۔