سنبھل کے بعد اجمیر درگاہ کے مندر ہونے کے دعوے پر مسلم پرسنل لا بورڈ کا سخت رد عمل

 عبادت گاہوں سے متعلق قانون1991  کی موجودگی میں اس طرح کے دعوے قانون اور دستور کا کھلا مذاق  ہے ،سپریم کورٹ نچلی عدالتوں پر روک لگائے:آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

نئی دہلی،28 نومبر

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کی سروے اور تشدد کے درمیان اجمیر واقع خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کو بھی مندر قرار دیتے ہوئےنچلی عدالت میں عرضی منظور کئے جانے پر ہر طرف تشویش کا ماحول ہے۔ سر کردہ ملی رہنما اور تنظیموں نے عدالتوں کے اس غیر سنجیدہ رویہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس طرح کے فرقہ وارانہ اور متنازعہ مسئلے کو ہوا دینے پر نچلی عدالتوں پر بھی ناراضگی کا ظہار کیا ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس بات پر  تشویش کا اظہار کر تے ہوئے ناراضگی  ظاہر کی  ہے ۔میڈیا کے نام جاری ایک بیا ن میں کہا گیا ہے کہ ملک کی مختلف عدالتوں میں یکے بعد دیگرے مساجد اور درگاہوں پر دعووں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ابھی سنبھل کی جامع مسجد کا معاملہ تھما نہیں تھا کہ عالمی شہرت یافتہ اجمیر کی درگاہ پر سنکٹ موچن مہادیو مندر ہو نے کا دعویٰ کر دیا گیا۔ افسوس کی بات ہے کہ اجمیر کی مقامی عدالت ویسٹ سول کورٹ نے اس عرضی کوسماعت کے لئے بھی منظور کر لیااور فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔ شکایت کنندہ نے درگاہ کمیٹی، مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور اور مرکزی محکمہ آثار قدیمہ کو مدعا علیہ بنا یا ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قومی ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے  بیان میں کہا کہ عبادت گاہوں سے متعلق قانون ” پلیسیس آف ورشپ ایکٹ 1991کی موجودگی میں اس طرح کے دعوے قانون اور دستور کا کھلا مذاق ہیں۔ پارلیمنٹ میں یہ قانون لاتے وقت یہ واضح کیا گیا تھا کہ 15 اگست1947 کو جس عبادت گاہ کی(مسجد،مندر، گرودوارہ، بودھ وہار، چرچ وغیرہ) کی جو پوزیشن ہےوہ علیٰ حالیہ باقی رہے گی اور اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ دراصل اس کا مقصد بالکل واضح تھا کہ بابری مسجد کے بعد اب کسی اور مسجد یا دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو نشانہ نہ بنا یا جا سکے۔ تاہم یہ انتہائی افسوس اور شرم کی بات ہے کہ گیان واپی مسجد، وارانسی، متھرا کی شاہی عیدگاہ، بوجھ شالہ مسجد،( مدھیہ پر دیش)، ٹیلے والی مسجد لکھنو? اور سنبھل کی جامع مسجد کے بعد اب اجمیر کی تاریخی درگاہ پر دعویٰ کر دیا گیا مزید بر ا?ں یہ کہ اس قانون کے ہو تے ہوئے عدالت نے عرضی گزار وشنو گپتا کی درخواست کو سماعت کے لئے منظور کرلیا اور اس پر فریقین کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔ ہندوفریق نے دعویٰ کیا کہ درگاہ کی زمین پر بھگوان شیو کا مندر تھا ،جس میں پوجا اور جل ابھیشیک ہوا کر تا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کیس کے دوران ،بنچ نے نہ صرف یہ کہ اس قانون کا حوالہ دیا بلکہ یہاں تک کہا کہ اس ایکٹ کی موجودگی میں کوئی نیا دعویٰ پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ لیکن جب گیان واپی مسجد پر نچلی عدالت نے دعویٰ قبول کر لیا تو مسلم فریق عدالت عظمیٰ کے سامنے یہ کہہ کر اپنا کیس لے گیا کہ ” پلیسیس ا?ف ورشپ ایکٹ کی موجودگی میں اس دعویٰ کو عدالت کو قبول نہیں کر نا چاہیے تاہم عدالت نے اس پر نرمی اختیار کر لی کہ سروے کئے جانے سے 1991کے قانون کی خلاف ورزی نہیں ہو تی۔ جس کا نتیجہ ہے کہ متھرا کی شاہی عید گاہ، لکھنو ¿ کی ٹیلہ والی مسجد کے بعد سنبھل کی جامع مسجد اور اجمیر کی درگاہ پر دعویٰ کر دیا گیا۔

ڈاکٹر الیاس نے چیف جسٹس آف انڈیا سے اپیل کی کہ وہ فی الفور اس معاملہ کا ازخود نوٹس لے کر نچلی عدالتوں کو پابند کریں کہ وہ اس قانون کی موجودگی میں کسی اور تنازعہ کے لئے دروازہ نہ کھولیں گی۔ اسی طرح یہ مرکزی و ریاستی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ اس قانون کو سختی سے نافذ کریں بصورت دیگر اس بات کا اندیشہ ہے کہ پورے ملک میں دھماکہ خیز صورت حال پیدا ہو جائے گی جس کے لئے عدالت عظمیٰ اور مرکزی حکومت ذمہ دار ہوں گی۔