سنبھل کے بعد اب اجمیر درگاہ کے مندر ہونے کے دعوے کی عرضی عدالت میں سماعت کیلئے منظور
ہندو سینا نے اجمیر کی نچلی عدالت میں ایک عرضی میں دعویٰ کیا ہےکہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پہلے شیو مندر تھا،تاریخی تصدیق کیلئے سروے کا مطالبہ،عدالت نے نوٹس جاری کرنے کی ہدایت دی
نئی دہلی ،27 نومبر :۔
سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران پیش آئے تشدد اور پانچ نوجوانوں کی موت کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ اب راجستھان کی ایک نچلی عدالت نے عالمی شہرت یافتہ درگاہ حضر ت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے بھی مندر ہونے کے دعوے کی عرضی قبول کر لی گئی ہے۔سول کورٹ (مغربی) کے جج منموہن چندیل نے یہ دعویٰ کرنے والی درخواست کو قبول کی ہے یعنی عدالت نے اس کیس کو قابل سماعت سمجھا ہے۔ عدالت نے بدھ کو سماعت کے بعد نوٹس جاری کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ اجمیر درگاہ کے سروے سے متعلق یہ حکم کافی اہمیت کا حامل ہے۔عدالتی حکم کے مطابق اجمیر درگاہ کمیٹی، محکمہ اقلیتی بہبود اور اے ایس آئی کو نوٹس جاری کیے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق ہندو سینا کی طرف سے دائر درخواست کو نچلی عدالت نے قبول کر لیا ہے۔ اس عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اجمیر درگاہ اصل میں بھگوان شیو کے لیے وقف ایک ہندو مندر تھا۔ ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا کی طرف سے دائر درخواست میں اس مقام پر ہندو عبادت کی اجازت مانگی گئی ہے اور تاریخی دعوؤں کی تحقیقات کے لیے آثار قدیمہ کے سروے کی درخواست کی گئی ہے۔
ہندو فریق نے اپنے دعوؤں کی تائید کے لیے ثبوت پیش کیے ہیں، جس میں 1911 میں ایک اجمیر کے رہائشی ہر ولاس شاردا کی لکھی گئی کتاب بھی شامل ہے۔ کتاب میں الزام لگایا گیا ہے کہ درگاہ کبھی ایک مندر تھا اور وہاں مندر کے باقیات تھے ۔ تہہ خانے میں مقبرہ اور مندر کی باقیات 75 فٹ لمبے دروازے کی شکل میں، جو درگاہ کے احاطے میں نظر آتی ہیں۔
کیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وشنو گپتا نے کہا، "ہمارے پاس جو تاریخی شواہد ہیں، بشمول کتاب اور مندر کے ملبے کے نتائج، ہمارے اس دعوے کی تائید کرتے ہیں کہ یہ زمین کبھی ہندو مندر تھی۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت اس کی تصدیق کے لیے ایک سروے کی اجازت دے گی۔
ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نےدرخواست میں کہاہے کہ جس زمین پر درگاہ کھڑی تھی اس میں بھگوان شیو کے لیے وقف مندر تھا، جسے سنکٹ موچن مہادیو مندر کہا جاتا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ درگاہ کمیٹی کا اس جگہ پر قبضہ غیر قانونی ہے اور وہ اسے ہٹانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ گپتا نے یہ بھی درخواست کی ہے کہ ہندو عقیدت مندوں کو اس مقام پر پوجا کرنے کی اجازت دی جائے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل مہارانا پرتاپ سینا نے یہ مسئلہ سال 2022 میں بھی اٹھایا تھا جب ریاست کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت تھے۔اس وقت اشوک گہلوت کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ اجمیر درگاہ کی مکمل جانچ کی جائے، ایسی دلیلیں دی گئیں کہ درگاہ کی کھڑکی پر سواستیکا کے نشانات پائے گئے۔ ان دعوؤں کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی، اس لیے اس وقت کی کانگریس حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ لیکن اب یہ معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ہے اور تمام فریقین کو اپنے دلائل پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔