سنبھل میں مندر پر غیر قانونی قبضے کی خبروں کی مقامی ہندوؤں نے تردید کی
بی جے پی اور دائیں بازو کے حامی میڈیا چینلوں کے ذریعہ بے بنیاد اور نفرت انگیز خبروں کو خود مقامی ہندوؤں نے مسترد کر دیا
نئی دہلی ،16 دسمبر :۔
سنبھل میں مسلم اکثریتی علاقے میں موجود ایک برسوں پرانے مندر پر پہنچے پولیس اہلکاروں اور مقامی حکام کی جانب سے مسلسل یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ مندر مسلمانوں نے قبضہ کر رکھا تھا اور اس پر تالا لگا کر ہندوؤں کو پوجا پاٹھ سے روک رکھا تھا ۔ سوشل میڈیا پر اس مندر سے متعلق خبریں مسلسل گردش کر رہی ہیں،دائیں بازو کےنظریات کے حامی صارفین اور میڈیا مسلسل مندر پر مسلمانوں کے قبضے کے دعوے کر رہا ہے۔مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔خود مقامی ہندوؤں نے جوبرسوں سے اس مندر کی دیکھ ریکھ کر رہے ہیں انہوں نے ان بے بنیاد اور نفرت انگیز خبروں کی تردید کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سنبھل کے مقامی لوگوں نے، بشمول ہندو خاندانوں اور رستوگی خاندان کے افراد نے مندر کے قریب تجاوزات کے بارے میں نیوز چینلز اور دائیں بازو دعووں کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مندر کے اردگرد کوئی تجاوزات نہیں ہیں۔ ان کے خاندان نے 2006 میں علاقہ چھوڑنے سے بہت پہلے تعمیر کیا تھا وہ تعمیرات اب بھی ویسی ہی موجود ہیں۔ رستوگی خاندان نے یہ بھی کہا کہ جب انتظامیہ نے مندر کی چابیاں مانگی تو انہوں نے خوشی سے انہیں حوالے کر دیا، اور یقین دہانی کرائی کہ ہندو مسلم تنازعہ یا خوف و ہراس ، ایسا کچھ نہیں ہے۔
مندر کی دیکھ بھال کرنے والےرستوگی خاندان کے ایک بزرگ دھرمیندر رستوگی نے کہا کہ مندر 2006 تک کھلا اور فعال رہا۔ انہوں نے کہا، "مندر کی چابیاں ہمیشہ ر ستوگی خاندان کے پاس تھیں، اور مسلمانوں یا کسی کا خوف نہیں تھا۔ مندر جوں کا توں تھا، اور وہاں کوئی تجاوزات نہیں تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مندر کے ساتھ والا کمرہ، جس کا کچھ رپورٹس میں ذکر کیا گیا ہے، اسےبھی ان کے خاندان نے 2006 میں علاقہ چھوڑنے سے بہت پہلے بنایا تھا۔
دھرمیندر کے بیٹے نے اپنے والد کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’’مقامی مسلمانوں سے کبھی کوئی خوف نہیں تھا۔ مندر کو اچھی طرح سے برقرار رکھا گیا تھا، اور کبھی بھی کوئی تجاوز نہیں کیا گیا تھا۔ مندر کے ساتھ والا کمرہ ہم نے ایک گودام کے طور پر بنایا تھا، اور جب انہوں نےہم سے پوچھا تو ہم نے چابیاں پولیس کے حوالے کر دیں۔
مقامی رہائشی پردیپ ورما نے مزید کہا، "رستوگی خاندان 1993 تک اسی گلی میں رہا، اور اس کے بعد جب وہ کبھی کبھار یہاں آتے، تو وہ باقاعدگی سے پوجا کرتے۔ چابیاں ہمیشہ ان کے پاس رہتی تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے میں کبھی کسی کو خطرہ محسوس نہیں ہوا۔
ایک اور پڑوسی، محمد سلمان نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "مندر کی چابیاں موہن رستوگی کے پاس تھیں، اور مقامی مسلمان اکثر باہر کی پینٹنگ کرکے مندر کی دیکھ بھال میں مدد کرتے تھے۔ مندر کے ساتھ والا کمرہ رستوگی خاندان نے بنایا تھا۔
اسی گلی کے ایک رہائشی شارق نے میڈیا کی جانب سے غیر قانونی قبضے کی خبروں کی تنقید کرتے ہوئے انہیں "جعلی خبریں” قرار دیا۔ انہوں نے کہا، کہ اس جگہ کو ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ ایک مندر ہے۔ نہ کوئی تجاوزات تھی اور نہ ہی کوئی خوف کی وجہ سے یہاں سے گیا، یہ ہمیشہ پرامن علاقہ تھا۔”
ایک اور مقامی محمد شعیب نے مزید کہا، "لوگوں نے 1998 اور 2006 کے درمیان ذاتی وجوہات کی بنا پر علاقہ چھوڑنا شروع کیا، نہ کہ کسی فرقہ وارانہ کشیدگی یا فسادات کی وجہ سے جیسا کہ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے۔ پنڈت جی کے بیٹے بھولا کشن، ادت رستوگی اور دیگر سبھی دوست تھے جو ایک ساتھ کھیلتے تھے۔
واضح رہے کہ 24 نومبر کو سنبھل جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد کے بعد سنبھل علاقہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی پائی جا رہی ہے اور مقامی انتظامیہ اور حکومت کے کارندے کشیدگی کوختم کرنے کے بجائے مسلسل مسلمانوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ موجودہ مندر کے سلسلے میں بھی مسلسل یہ افواہ پھیلائی جا رہی ہے کہ اس مندر پر مسلمانوں کو قبضہ تھا اور مسلمانوں نے اس پر تا لا لگا دیا تھا جبکہ مقامی ہندو اس کی تردید کر رہے ہیں۔مقامی مقامی پولیس اہلکاریہاں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے کارندے کی طرح کام کر رہے ہیں اور علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔