سنبھل مسجد تنازعہ: سپریم کورٹ  نے نچلی عدالت کی کارروائی پر روک لگائی  

ایڈو کیٹ کمشنر کی رپورٹ کو مہر بند لفافے میں رکھنے اور اوپن نہ کرنے کی سخت حکم،یوگی حکومت کو بھی امن و امان کی ہم آہنگی کیلئے نصیحت

نئی دہلی،29 نومبر :۔

سنبھل میں جاری شاہی مسجد کے سروے کے درمیان پیش آئے تشدد اور ہنگامہ آرائی کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے   اہم ہدایات جاری کی ہیں۔ عدالت نے نچلی عدالتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی بھی کارروائی نہ کریں جب تک ہائی کورٹ سے کوئی واضح ہدایت نہ ملے۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کی سربراہی میں بنچ نے کہا کہ مسجد کمیٹی کو اپنے قانونی اختیارات کا استعمال کرنے کا موقع دیا جائے، چاہے وہ ہائی کورٹ ہو یا ڈسٹرکٹ کورٹ۔

رپورٹ کے مطابق  جہاں سپریم کورٹ نے عدالتوں کو ہدایت جاری کی ہے وہیں  اتر پردیش کی یوگی حکومت کو بھی  ہدایت دی ہے کہ وہ علاقے میں امن و ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرے اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے۔ عدالت نے ایڈوکیٹ کمشنر کی رپورٹ کو مہر بند لفافے میں رکھنے اور اسے نہ کھولنے کا بھی حکم دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 19 نومبر کو سنبھل کی سول عدالت کے جونیئر جج نے جامع مسجد کے سروے کا حکم جاری کیا تھا۔ 24 نومبر کو جب سروے ٹیم جامع مسجد پہنچی تو علاقے کے افراد اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں تشدد بھڑک اٹھا اور 6 افراد جان  چلی گئی۔

کیس کی سماعت کے آغاز میں جامع مسجد کمیٹی کی جانب سے سینئر وکیل حفیظہ احمدی نے سپریم کورٹ کے سامنے نچلی عدالت کے حکم کی کاپی پیش کی۔ اس پر چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ نے کہا کہ عدالت حکم دیکھ چکی ہے لیکن کیس پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گی۔ مسجد کمیٹی کو اپنے قانونی حقوق استعمال کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا، خواہ وہ ضلع عدالت ہو یا ہائی کورٹ۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں بینچ کے سامنے وکیل احمدی نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایسے 10 مقدمات زیر التوا ہیں، جہاں فوراً سروے کا حکم دے دیا گیا اور سروے کمشنر بھی تعینات کردیا گیا۔ انہوں نے درخواست کی کہ ایسے احکامات روکے جائیں۔

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر اس معاملے میں مزید کارروائی نہیں ہوگی اور ٹرائل کورٹ 8 جنوری تک کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ سپریم کورٹ نے مسجد کمیٹی کو بتایا کہ انہیں سیول جج کے حکم کو چیلنج کرنے کا حق حاصل ہے اور وہ سی پی سی اور آئین کے تحت اپیل کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ضلع انتظامیہ کے وکیل ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج کو کہا کہ اس مرحلے پر ہم کوئی فیصلہ نہیں دیں گے لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ علاقے کے حالات ٹھیک رہیں اور امن و ہم آہنگی برقرار رہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ تمام فریقین کو غیرجانبدار رہنا ہوگا اور قانونی راستوں کا استعمال کرنا ہوگا۔

یہ معاملہ سنبھل کی جامع مسجد کے تعلق سے پیدا ہوئے تنازعہ سے جڑا ہے، جہاں کچھ فریقین نے مسجد کی ملکیت کو چیلنج کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ایک پرانے مندر کے مقام پر بنائی گئی ہے۔ مسجد کمیٹی کے مطابق، حالیہ سروے میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جو ان دعوؤں کی تصدیق کرے۔ دوسری جانب، ہندو فریق قدیم مندر کے آثار کی موجودگی پر اصرار کر رہا ہے۔دریں اثنا آج نماز جمعہ کے دوران کشیدگی کے پیش نظر سنبھل میں  حفاظتی انتظامات کیے گئے  ۔ پولیس اور انتظامیہ نے علاقے میں اضافی فورس تعینات  کی اور سخت سیکورٹی میں آج جمعہ کی نماز تکمیل کو پہنچی۔