سنبھل شاہی جامع مسجد کمیٹی کے صدر ظفر علی ایڈوکیٹ حراست میں
صدر ظفر علی پر چار ماہ قبل 24 نومبر کو سنبھل میں ہوئے تشدد میں ملوث ہونے کا الزام

نئی دہلی، 23 مارچ :
سنبھل میں گزشتہ سال نومبر میں شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد میں پولیس انتظامیہ کی جانب سے یکطرفہ طور پر مسلمانوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے ۔اب پولیس نے اس تشدد معاملے میں شاہی جامع مسجد کے صدر ایڈو کیٹ ظفر علی کو گرفتار کر لیا ہے۔ انتظامیہ نے الزام عائد کیا ہے کہ سروے کے دوران تشدد میں ان کا بھی کردار ہے ۔
رپورٹ کے مطابق جامع مسجد کمیٹی کے صدر ظفر علی ایڈوکیٹ کو اتوار کو کوتوالی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ ان پر چار ماہ قبل 24 نومبر کو سنبھل میں ہوئے فسادات میں کردار ادا کرنے کا الزام ہے۔ ان کی طرف سے اشتعال انگیز بیان دینے کا الزام ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایس آئی ٹی کی جانچ میں حقائق سامنے آنے کے بعد گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
اس سلسلے میں اے ایس پی شریش چند نے کہا کہ انہیں 24 نومبر کے فساد میں ملزم بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب شہر میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ کئی تھانوں کی پولیس کے علاوہ پی اے سی اور آر اے ایف کو تعینات کیا گیا ہے۔ افسران فلیگ مارچ بھی کر رہے ہیں۔
ظفر علی ایڈووکیٹ کے بھائی طاہر علی ایڈووکیٹ نے پولیس انتظامیہ کے اہلکاروں پر ماحول خراب کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے بھائی کو پیر کو جوڈیشل انکوائری کمیشن کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرانا ہے۔ اس لیے پولیس نے منصوبہ بند طریقے سے کارروائی کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بھائی نے کمیشن کو بتایا تھا کہ گولی پولس نے چلائی تھی اور پانچ لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ یہ بیان ریکارڈ کرانے جاتے، انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہی بیان ان کا بھائی جیل میں رہتے ہوئے بھی ریکارڈ کرائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ ظفر علی ایڈووکیٹ اور پولیس افسران کے درمیان ماضی میں بھی کئی بار تنازعہ ہو چکا ہے۔ جامع مسجد کمیٹی صدر نے 24 نومبر کو ہونے والے ہنگامے کے دوران پولیس پر فائرنگ کا بھی الزام لگایا تھا۔