سنبھل شاہی جامع مسجد کمیٹی کے سربراہ کوپولیس نے حراست میں لیا
جامع مسجد کمیٹی کے صدر ظفر علی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پولیس کو مظاہرین پر گولی چلانے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے دیکھا،انہوں نے پریس کانفرنس کر کے پولیس افسران پر سنگین الزامات عائد کئے
نئی دہلی ،25 نومبر :۔
ممتاز قانون داں اور سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے صدر ظفر علی کو اتر پردیش پولیس نے پیر کی شام ایک پریس کانفرنس کے فوراً بعد حراست میں لیا۔در اصل انہوں نے حالیہ احتجاج کے دوران پولیس پر فائرنگ کا منصوبہ بندی کرنے اور گولی چلانے کا الزام عائد کیا تھا ۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت پولیس افسران نے مسلمانوں کی بھیڑ پر فارنگ کی منصوبہ بند کی تھی میں وہاں موجود تھا۔انہوں نے پولیس کے سینئر افسران پر سنگین الزامات بھی عائد کئے۔ اس پریس کانفرنس کے فوراً بعد پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔
رپورٹ کے مطابق پریس کانفرنس کے دوران، ظفر علی نے پولیس تشدد کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کے بارے میں تفصیل سے بتایا، جن میں اب تک پانچ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ا نہوں نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی)، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) کو مظاہرین کے خلاف فائرنگ کے احکامات جاری کرنے پر بات کرتے ہوئے سنا۔
ظفر علی نے الزام لگایا کہ انہوں نے ذاتی طور پر بھیڑ پر پولیس کی فائرنگ کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے پولیس کے اس دعوے کی تردید بھی کی کہ مظاہرین نے تشدد کا آغاز کیا تھا۔
انہوں ن ے کہا کہ "میں نے عوام کی طرف سے کوئی فائرنگ نہیں دیکھی۔ یہ پولیس ہی تھی جو گولی چلا رہی تھی۔ یہاں تک کہ میں نے انہیں دیسی کٹہ کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا۔ ظفر علی نے دعویٰ کیا کہ اگر سب ڈویژنل مجسٹریٹ ( ایس ڈی ایم) اور سرکل آفیسر (سی او) عوام کے خدشات کو شفاف طریقے سے دور کرتے تو اس الجھن سے بچا جا سکتا تھا۔ اس کے بجائے، انہوں نے سی او پر گالی دینے، لاٹھی چارج کا حکم دینے، اور مظاہرین کو گولی مارنے کی دھمکی دینے کا الزام لگایا۔
ظفر علی نے عوام میں غلط فہمی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ہجوم اس وقت بے قابو ہو گیا جب انہوں نے سمجھا کہ مسجد میں کھدائی ہو رہی ہے۔ ہماری پرسکون رہنے کی اپیلوں اور صورتحال کو واضح کرنے کے اعلانات کے باوجود، انتظامیہ کی غلط روش اور کمیونیکیشن کی کمی نے افراتفری اور تشدد میں اضافہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ "جب میں موجود تھا تو ڈی آئی جی، ایس پی اور ڈی ایم فائرنگ کے احکامات جاری کرنے پر غور کر رہے تھے۔ میں نے لوگوں سے گھر جانے کی اپیل کی اور 75 فیصد ہجوم چلا بھی گیا تھا کچھ لوگ وہاں صرف یہ دیکھنے کیلئے رکے تھے کہ مسجد میں کیا ہو رہا ہے۔کمیٹی نے سروے کے دوران حوض کا پانی خالی کرایا اور پانی مسجد سے باہر جا رہا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو غلط فہمی پیدا ہوئی کی کھدائی ہو رہی ہے اور ہماری جانب سے بار بار اپیل کے باوجود بھیڑ بے قابو ہو گئی اور پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس کے بعد مظاہرین کی جانب سے افرا تفری کی صورت پیدا ہو گئی ۔
واضح رہے کہ اس واقعے میں پولیس فائرنگ میں مرنے والوں کی تعداد پانچ ہو گئی ہے۔ اتر پردیش پولیس نے بھی سات ایف آئی آر درج کیں اور سینکڑوں کو نامزد کیا جن میں ایس پی ایم پی ضیاء الرحمان برق اور مقامی ایس پی ایم ایل اے اقبال محمود کے بیٹے سہیل اقبال کو ملزم بنایا گیا ہے۔