سنبھل شاہی جامع مسجد تنازعہ : ایک اور عرضی دائر،مسجد میں نماز پر پابندی کا مطالبہ

سمرن گپتا نے عدالت میں دائر درخواست میں کہا کہ جب تک یہ فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ یہ جگہ مندر ہے یا مسجد، کسی مذہب کی عبادت یا نماز نہیں ہونی چاہیے،مسجد کو سیل کر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی نگرانی میں دینے کا بھی مطالبہ

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی ، 03 جولائی :

اترپردیش کے سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد لے کر جاری تنازعہ کے درمیان اب ایک نیا معاملہ سامنے آیاہے ۔ جمعرات کو ایک اور عرضی دائر کی گئی ہے اور اس میں مسجد میں نماز پڑھنے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چندوسی عدالت نے اس پر سماعت کے لیے 21 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔ یہ عرضی سمرن گپتا نامی خاتون نے دائر کی ہے۔

سمرن گپتا نے عدالت میں دائر درخواست میں کہا کہ جب تک یہ فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ یہ جگہ مندر ہے یا مسجد، کسی مذہب کی عبادت یا نماز نہیں ہونی چاہیے۔ اس نے مسجد کو سیل کرنے اور اسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی نگرانی میں دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

19 نومبر 2024 کو 8 ہندو درخواست گزاروں نے عدالت میں ایک عرضی دائر کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ سنبھل کی متنازعہ شاہی جامع مسجد ہری ہر مندر ہے۔بتایا گیا کہ عدالت کے حکم پر پہلا سروے اسی رات کیا گیا اور دوسرا سروے پانچ دن بعد 24 نومبر کو کیا گیا۔ اس سروے کے دوران تین مقامات پر تشدد اور فسادات ہوئے۔ پہلا ہنگامہ متنازعہ جامع مسجد کے قریب ہوا، جہاں پانچ افراد کی جان چلی گئی۔ دوسرا ہنگامہ نخاسہ تیراہا میں ہوا جہاں پولیس سے تصادم کے دوران فائرنگ ہوئی ۔ اس کے بعد تیسرا تشدد ہندو پورہ کھیڑا میں ہوا۔

تشدد کے بعد پولیس نے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق، مسجد کمیٹی کے صدر ظفر علی سمیت 2750 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ اب تک 96 افراد کو جیل بھیجا جا چکا ہے۔ معاملہ ہائی کورٹ تک بھی پہنچ گیا ہے۔ ہائی کورٹ نے نچلی عدالت میں سماعت جاری رکھنے کو کہا۔ اب 21 جولائی کو عدالت فیصلہ کرے گی کہ مسجد میں نماز پر پابندی عائد کی جانی چاہیے یا نہیں۔