سنبھل شاہی جامع  مسجد:ضمنی الیکشن کے پیش نظر سروے  میں جلد بازی کی گئی

مسجد انتظامی کمیٹی کے صدر ظفر علی نے کہا کہ سروے میں مسجد کے اندر ہندو ؤں کے دعوے کی کوئی علامت نہیں ملی، مندر کو گرا کر مسجد بنائی گئی، یہ محض افواہ ہے

نئی دہلی ،21 نومبر :۔

متھرا شاہی عید گاہ اور گیان واپی جامع مسجد کی طرز پر اب سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد پر بھی ہندوتو شدت پسندوں کی جانب سے بے بنیاد دعوے کئے جا رہے ہیں ۔حیرت انگز امر یہ ہے کہ شاہی جامع مسجد کا معاملہ پہلی بار عدالت میں پہنچا اور عدالت بھی اس مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سروے کا فرمان بھی جاری کر دیا ۔اس پر مزید ضلع کمشنر نے عدالت سے بھی زیادہ جلد بازی دکھائی اور سروے کے لئے فوری طور پر مسجد پہنچ گئے۔اس معاملے پر پورے ملک میں بحث جاری ہے۔

سرو ےمیں کیا نکلا   اس بارے میں مسجد انتظامی کمیٹی کے صدر ظفر علی نے میڈیا کو بتایا کہ منگل کو کیے گئے سروے میں مسجد کے اندر ہندو مندر کی کوئی علامت نہیں ملی۔مسجد انتظامی کمیٹی کے صدر نے کہا کہ مندر کو گرا کر مسجد بنائی گئی، یہ محض افواہ ہے۔ صدر نے سال 1529 میں مسجد کی تعمیر کا دعویٰ کیا اور کہا کہ سروے میں مندر کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ مسجد کے صدر نے الزام لگایا کہ پولنگ کے دوران انتخابات کو پولرائز کرنے کے مقصد سے جلد بازی میں سروے کرایا گیا۔ اس معاملے کی اگلی سماعت 29 نومبر کو ہوگی، جس میں مسلم فریق اپنا جواب داخل کرے گا۔

یہاں سروے کے بعد مسجد کی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ کئی تھانوں کی پولیس کے ساتھ پی اے سی اور آر آر ایف کو تعینات کیا گیا ہے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر مسجد کو جانے والے دو راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ پولیس انتظامیہ کے اہلکار بھی پورے معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں۔

دریں اثنا صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے سنبھل کی جامع مسجد کے حوالے سے پیدا کردہ تنازع اور عدالت کی جانب سے سروے کے حکم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ تاریخ کے جھوٹ اور سچ کو ملا کر فرقہ پرست عناصر ملک کے امن و امان کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے سے ملک کی سیکولر بنیادیں متزلزل ہورہی ہیں ، نیز تاریخی بیانیے کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوششیں قومی سالمیت کے لیے کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہیں۔ مولانا مدنی نے یاد دلایا کہ ملک نے بابری مسجد کی شہادت کا زخم برداشت کیا ہے اور اس کے اثرات سے آج بھی دوچار ہے ۔ اسی پس منظر میں عبادت گاہ (خصوصی دفعات) قانون 1991 نافذ کیا گیا تھا تاکہ ملک مسجدو مندر کے جھگڑوں کی آماجگاہ نہ بن پائے۔ سپریم کورٹ نے بھی بابری مسجد قضیہ میں فیصلہ سناتے ہوئے اس قانون کو ضروری قرار دیا تھا ، لیکن آج عدالتیں اس کو نظرانداز کرکے فیصلے سنارہی ہیں ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کہیں نہ کہیں مسجد کا تنازع کھڑا کیا جا رہا ہے اور پھر ’سچائی جاننے‘کے نام پر عدالتوں سے سروے کی اجازت حاصل کرلی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ سروے میڈیا کے ذریعے دو کمیونٹیز کے درمیان دیوار بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہم عدالت کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، لیکن عدالت کو فیصلے کرتے وقت یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ملک اور سماج پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے۔

تاریخ پر ایک نظر؟:

مسجد بابر کے حکم پر 1529 میں تعمیر کی گئی۔میر بیگ نے بابر کے حکم پر مسجد بنوائی تھی۔ یہ عمارت سنبھل کی قدیم ترین یادگاروں میں سے ایک ہے۔  جامع مسجد بابری مسجد کے نام سے بھی مشہور ہے۔جبکہ – ہندو فریق کے  دعوے کے مطابق، مندر کو گرا کر مسجد کی تعمیرہوئی ۔