سنبھل  جامع مسجد کی سروے رپورٹ عدالت میں پیش،میڈیا میں مندر ہونے کا دعویٰ

45 صفحات پر مبنی رپورٹ سیل بند لفافے میں پیش کی گئی مگر میڈیا رپورٹوں میں مندر ہونے کے شواہد ملنے کا دعویٰ کیا جا رہا  ہے

نئی دہلی  ، 02 جنوری :

اتر پردیش کے سنبھل ضلع  میں واقع شاہی جامع مسجد معاملے میں سروے رپورٹ   جمعرات کو عدالت کے مقرر کردہ ایڈوکیٹ کمشنر رمیش سنگھ راگھو نے عدالت میں پیش کی ۔ تقریباً 45 صفحات پر مبنی سروے رپورٹ سول جج سینئر ڈویژن کی عدالت میں پیش کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے حکم  کے مطابق سیل بند لفافے میں پیش کی گئی ہے۔

ایڈوکیٹ کمشنر راگھو نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ سروے ضلع عدالت کی ہدایت پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے پولیس انتظامیہ کی ٹیم کے ساتھ 19 نومبر کو شاہی جامع مسجد میں پہلا سروے کیا۔ رات کے وقت اور بھیڑ کی وجہ سے سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے، سروے کا کام اس دن درمیان میں ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد دوسرا سروے 24 نومبر کو کیا گیا۔ سروے کے دوران موقع سے ملنے والی تصاویر، ویڈیوز اور حقائق کے ساتھ تیار رپورٹ آج سول جج سینئر ڈویژن کی عدالت میں سیل بند لفافے میں پیش کی گئی۔ ہم نے سروے رپورٹ سپریم کورٹ کے حکم پر سیل بند لفافے میں پیش کی ہے۔

واضح رہے کہ یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے حکم  پر سیل بند لفافے میں پیش کی گئی ہے لیکن اس سے پہلے میڈیا میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ رپورٹ میں مندر کے بہت سے شواہد ملے ہیں۔ میڈیا ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سنبھل کی جامع مسجد کی دیواروں سے ملنے والے نوادرات کو سروے رپورٹ میں ایک مندر کی طرح بتایا گیا ہے۔ اس میں برگد کے 2 درخت ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے، جن کی ہندو پوجا کرتے ہیں۔ عدالت میں پیش کی گئی جامع مسجد سروے رپورٹ 45 صفحات کی ہے۔ 4.5 گھنٹے کی ویڈیو گرافی اور 1200 تصاویر ہیں۔

واضح رہے کہ ہندو فریق نے مسجد کو مندر قرار  دیتے ہوئے سروے کامطالبہ کیا تھا جس کے بعد عدالت نے فوری طور پر سروے کا حکم دیا اور کمشنر بھی فوری طور پر حکم کے بعد مسجد کا سروے کرنے پہنچ گئے یہ سب اتنی عجلت میں ہوا کہ کسی کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ عدالت کے حکم پر اتنی جلدی عمل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  19 کو سروے ہوا پھر   24 نومبر کو بھی دوبارہ سروے کیا گیا جس کے بعد تشدد پھوٹ پڑا اور پانچ مسلم نوجوانوں کی پولیس کے ذریعہ کی گئی فائرنگ میں جان چلی گئی ۔