سنبھل جامع مسجد:سخت سیکورٹی کے درمیان شاہی جامع مسجد میں جمعہ کی نمازادا کی گئی
سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمان برق بھی نماز کیلئے پہنچے،کہاسروے کے عدالتی احکامات کو چیلنج کریں گے
نئی دہلی ،22 نومبر :۔
ایودھیا ،متھرا اور کاشی کے بعد مغربی اتر پردیش کے سنبھل میں واقع ایک اور تاریخی اور قدیم جامع مسجد ہندوتو نوازوں کے نشانے پر ہے۔گزشتہ منگل کو ضلعی عدالت کی جانب سے فوری سماعت اور سروے کے حکم کے بعد ملک بھر میں موضوع بحث ہے۔ ہندو مندر کے دعوے اور سروے کے بعد علاقے میں ماحول کشیدہ ہے۔آج جمعہ کی نماز میں بڑی تعداد میں لوگوں کے پہنچنے اور بھیڑ کے پیش نظر علاقے میں سیکورٹی کا سخت انتظام تھا۔اس دوران پولیس نے علاقے میں امن و امان کے لئےجمعہ سے قبل فلیگ مارچ بھی کیا۔آج جمعہ کی نماز کیلئے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمان بھی شاہی جامع مسجد پہنچے۔ انہوں نے جمعہ کی نماز سے قبل میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد سینکڑوں سالوں سے مسلمانوں کی ہے اور وہ عدالتی احکامات کو چیلنج کریں گے جس میں منگل کو مسجد میں سروے کی اجازت دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جامع مسجد پچھلے سیکڑوں سالوں سے ہماری ہے… میں یہاں نماز پڑھنے آیا تھا اور میں نے دیکھا کہ پولیس فورس تعینات ہے… تین دن پہلے جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے کیونکہ سنبھل میں تمام برادریاں رہ رہی ہیں۔ ہم آہنگی ہے لیکن کچھ شرارتی عناصر مسجد کے خلاف بے بنیاد دعوے کر کے اور پٹیشن دائر کر کے ماحول کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں… عدالتی احکامات کو چیلنج کرنا میرا حق ہے… اتنی جلدی میں سروے کرنے کی جلدی تھی؟
خیال رہے کہ منگل کو مقامی عدالت کے حکم پر شاہی جامع مسجد کا سروے ایک عرضی کے بعد کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اصل میں اس جگہ پر ہری ہر مندر تھا۔دریں اثنا، پولیس نے علاقے میں سیکورٹی بڑھا دی ہے اور امتناعی احکامات نافذ کر دیئے گئے تھے۔ سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کرشن کمار وِشنوئی نے کہا کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی جانب سے لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے پیدل مارچ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جو لوگ امن کو خراب کرنے کی کوشش کریں گے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘‘
پولیس نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنی مساجد میں ہی نماز ادا کریں اور کسی بھی طرح کے مشتبہ مواد یا افواہوں کو پھیلانے سے گریز کریں۔ مزید برآں، سوشل میڈیا پر سخت نگرانی کی جا رہی ہے اور دو افراد کو مشتبہ پوسٹس کی وجہ سے پابند کیا گیا ہے۔ ڈرون کے ذریعے بھی علاقے کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ وکیل وشنو شنکر جین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مسجد دراصل ہری ہر مندر کے مقام پر بنائی گئی ہے، جو ہندوؤں کی مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخی شواہد اور آثار واضح طور پر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ مقام ایک ہندو مندر کا تھا۔عدالت نے اس معاملے میں ایڈوکیٹ کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ مسجد کی ویڈیوگرافی اور فوٹوگرافی کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔