سنبھل تشدد معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ سے شاہی جامع مسجد کمیٹی کے صدر ظفر علی کو ضمانت

نئی دہلی ،26 جولائی :۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک ممتاز وکیل اور سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے صدر ظفر علی کو ضمانت دے دی ہے، جو مارچ 2025 سے حراست میں تھے۔ انہیں نومبر 2024 میں مسجد کے متنازعہ پولیس کی زیرقیادت سروے کے بعد پھوٹنے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ اس دوران پولیس فائرنگ میں کم از کم پانچ مسلمان مرد ہلاک ہوئے تھے۔
جسٹس سمیر جین نے سنگل جج کی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے علی کی گرفتاری کے حالات اور جاری تحقیقات پر غور کرنے کے بعد ان کی ضمانت منظور کی۔ علی کو اتر پردیش پولس کی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) نے مراد آباد جیل میں حراست میں لیا تھا۔
حکام نے علی پر الزام لگایاتھا کہ انہوں نے مسجد کے سروے کے بارے میں پیشگی اطلاع ملنے کے بعد مظاہرین کو مبینہ طور پر متحرک کر کے احتجاج کے دوران تشدد کو ہوا دی۔ اسے بھارتیہ نیائے سنہتا، بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم، اور پبلک پراپرٹی ڈیمیج پریوینشن ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم، سنبھل کے رہائشیوں اور انسانی حقوق کے حامیوں نے پولیس کے بیانیے کی تردید کیا اور الزام لگایا کہ احتجاج کے دوران پولیس کی بربریت کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے ظفر علی کو نشانہ بنایا گیا۔
تشدد کے فوراً بعد علی نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں سینئر ضلعی عہدیداروں کی مذمت کی گئی، جن پر انہوں نے پولیس پر فائرنگ کا حکم دینے کا الزام لگایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی)، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) سمیت اعلیٰ حکام کے درمیان ملاقاتیں ہوئی ہیں، جس میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
علی نے سب ڈویژنل مجسٹریٹ (SDM) اور سرکل آفیسر (CO) کے طرز عمل پر بھی تنقید کی، اور الزام لگایا کہ ان کی دھمکیوں اور بدسلوکی سے ہجوم مشتعل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً 75 فیصد مظاہرین پر امن طور پر منتشر ہو گئے تھے لیکن پولیس کی فائرنگ بلاجواز تھی اور اس سے بچا جا سکتا تھا۔