سنبھل تشدد معاملہ : رکن پارلیمنٹ  ضیاء الرحمٰن برق کوراحت، گرفتاری پر روک

الہ آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی آر منسوخ کرنے سے انکار کرتے ہوئے تحقیقات میں تعاون کی ہدایت دی

نئی دہلی ،03 جنوری :۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے سنبھل کی شاہی جامع مسجد میں 24 نومبر کو سروے کے دوران لوگوں کو تشدد کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا کر رہے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلینٹ ضیاء الرحمٰن برق کو راحت دی ہے اور ان کی گرفتاری پر روک لگا دی ہے۔ اب انہیں سنبھل تشدد کیس میں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ عدالت نے کہا کہ چونکہ ان دفعات میں سات سال سے کم کی سزا ہے، اس لئے انہیں فی الحال گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ اگرچہ ہائی کورٹ نے ایم پی ضیاء الرحمن برق کی ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے، لیکن عدالت نے کہا کہ پولیس نوٹس جاری کر کے انہیں پوچھ گچھ کے لئے بلا سکتی ہے۔

درخواست میں ایف آئی آر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ ابتدائی طور پر ایف آئی آر کا جائزہ لینے سے درخواست گزار کے خلاف قابلِ سماعت جرم کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا حکومت بنام حبیب عبداللہ جلالی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی درخواست قبول نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اس میں مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ حکم جسٹس راجیو گپتا اور جسٹس اظہر حسین ادریسی کی ڈویژن بنچ نے جمعہ کو ایم پی ضیاء الرحمن برق کی طرف سے ایڈوکیٹ عمران اللہ اور سید اقبال اور ریاستی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل منیش گوئل کی سماعت کے بعد دیا۔

سنبھل پولیس نے 24 نومبر کے تشدد میں سنبھل کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمٰن برق کو بھی ملزم بنایا ہے۔ ان کے خلاف کئی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ ایم پی برق نے ایک عرضی میں ایف آئی آر کو چیلنج کیا تھا۔ ساتھ ہی ایف آئی آر منسوخ کرنے کی اپیل بھی کی گئی تھی۔

مذکورہ واقعہ 24 نومبر کو اُتر پردیش کے شہر سنبھل میں پیش آیا تھا، جب مسجد کے سروے کے دوران فسادات بھڑک اٹھے تھے۔ پولیس نے ضیاء الرحمٰن برق کو کلیدی ملزم کے طور پر پیش کیا تھا۔ پولیس نے برق کے خلاف مختلف سنگین الزامات عائد کیے تھے اور ایف آئی آر درج کی تھی۔ اس کے بعد، ضیاء الرحمٰن برق نے ہائی کورٹ میں ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی درخواست دائر کی تھی، تاہم ہائی کورٹ نے ان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے پولیس کی تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔