سنبھل:میں سنبھل کیا اتر پردیش میں بھی نہیں تھا اور میرے خلا ف ایف آئی آر درج کی گئی
سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمان برق نے فسادات بھڑکانے کے الزامات کی تردید کی، حکومت اور پولیس کی سازش کا الزام عائد کیا
نئی دہلی ،26 نومبر :۔
سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے دوران پیش آئے پر تشد د واقعہ میں اب تک پانچ مسلم نوجوانوں کی موت ہو چکی ہےمگر حکومت کی جانب سے کارروائی مسلسل مسلمانوں کے خلاف کی جا رہی ہے۔ اب تک سیکڑوں مسلمان گرفتار کئے جا چکے ہیں اور سیکڑوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔ پولیس نے حیرت انگیز طور پر سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیا الرحمان برق کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کر لی ہے جبکہ ضیاء الرحمن برق اس وقت سنبھل ہی نہیں اتر پردیش میں بھی موجود نہیں تھے۔ برق کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ جامع مسجد کے عدالتی حکم پر ہونے والے سروے کے دوران ہونے والی جھڑپوں کے دوران پتھراؤ کے لیے ” اکسا ” رہے تھے۔
رپورٹ کے مطابق سنبھل کے ایم پی ضیاء الرحمان برق نے مسجد کے سروے کے دوران سنبھل، اتر پردیش میں تشدد بھڑکانے کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے رکن برق نے کہا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے بنگلور میں تھے۔ "میں ریاست میں بھی نہیں تھا، سنبھل کو چھوڑ دو۔ میں میٹنگ کے لیے بنگلور گیا تھا، لیکن میرے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا۔ یہ پولیس انتظامیہ کی سازش ہے، ۔ برق نے پولیس پر الزام لگایا کہ وہ انہیں نشانہ بناکر اتر پردیش اور ہندوستان دونوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیس کو گھڑ ا جا رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ جب لوگ سروے ٹیم کی آمد سے بے خبر تھے تو پتھر کیسے پھینک سکتے تھے۔ برق نے الزام لگایا کہ پولیس نے جھڑپ کے دوران ہتھیاروں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں بے گناہ مارے گئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تشدد کے ذمہ دار افسران کے خلاف قتل کے الزامات درج کیے جائییں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کی وجہ سے معصوم جانیں ضائع ہوئیں۔
دریں اثنا سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا کہ حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران مبینہ بدعنوانی سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ تشدد اتر پردیش کی حکومت کی طرف سے ترتیب دیا گیا تھا۔ یادو نے یہ بھی الزام لگایا کہ یہ تشدد علاقے میں فرقہ وارانہ بدامنی پیدا کرنے کی دانستہ کوشش تھی۔ "فساد حکومت کی طرف سے منظم کیا گیا تھا۔ انہوں نےیہ بھی مطالبہ کیا کہ موت کے ذمہ دار پولیس افسران کو معطل کیا جائے اور قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔
اکھلیش یادو نے قانونی پیچیدگیوں کو پوری طرح سمجھے بغیر مسجد کے سروے کو آگے بڑھانے کے عدالت کے فیصلے پر تنقید کی ۔ ان کے مطابق، یہ سروے عدالتی حکم کے تحت ہونے کی بجائے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی ہدایت پر کیا گیا اور غیر ضروری تصادم کا باعث بنا۔ یادو نے دعویٰ کیا کہ صورتحال اس وقت بڑھ گئی جب کچھ لوگوں نے سروے پر سوال کیا اور پولیس نے بھیڑ پر گولی چلا کر جواب دیا۔