سنبھل:جامع مسجد کمیٹی کے صدرظفر علی کی گرفتاری کے خلاف وکلا کا احتجاجی مارچ

مارچ میں شامل وکلا نے پولیس کی کارروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے نعرے بازی کی، علاقے میں اہم مقامات پر پولیس فورس تعینات

نئی دہلی ،24 مارچ :۔

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کی سروے کے دوران پیش آئے تشدد  میں مسلمانوں کی گرفتاری کا سلسلہ اب تک رکا نہیں ہے۔اب انتظامیہ  بڑی ہی دلیری کے ساتھ شاہی جامع مسجد کے صدر ایڈو کیٹ ظفر علی کو ہی گرفتار کر لیا ہے۔ صدر کی گرفتاری کے بعد سنبھل میں ایک بار پھر کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ظفر علی کی گرفتاری کے بعد عوام میں جہاں غصہ اور غم پایا جا رہا ہے وہیں وکلا بھی اس کارروائی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ۔ آج پیر کو بڑی تعداد میں وکلا نے ظفر علی کی گرفتاری کے خلاف سڑکوں پر اتر کر احتجاجی مارچ کیا۔ اس دوران سنبھل کے اہم مقامات پر پولیس سیکورٹی تعینات تھی۔

رپورٹ کے مطابق سنبھل کی شاہی جامع مسجد کمیٹی کے صدر ظفر علی ایڈوکیٹ کی گرفتاری پر شہر کے وکلاء میں  زبردست غصہ پھیل گیا  ہے۔  پیر کو وکلا نے ہڑتال کی اور پولیس کے خلاف مارچ کیا۔  انہوں نے پولیس پر غلط کارروائی کرنے کا بھی الزام لگایا ہے۔   وکلاء نعرے لگاتے ہوئے عدالت سے شنکر چوک تک پہنچے۔ جامع مسجد کمیٹی صدر کی رہائی کا مطالبہ۔  اس دوران احتیاطی تدابیر کے طور پر پولیس کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ جامع مسجد کمیٹی کے سربراہ کو اتوار کو 24 نومبر کے فسادات میں سازش سمیت کئی الزامات میں گرفتار کیا گیا  ہے۔  اسے عدالت سے جیل بھیج دیا گیا ہے۔  جس پر وکلاء نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔

شاہی جامع مسجد کے صدر کی گرفتاری کے بعد سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔  سنبھل تھانے میں پہلے ہی کئی تھانوں سے فورسز کو بلایا گیا تھا۔  اس کے علاوہ پی اے سی اور آر آر ایف کمپنیوں کو بلایا گیا۔  مارچ کے لیے شہر میں کئی کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں۔ تھانے میں بھاری نفری کی تعیناتی کے ساتھ شہر کے اہم مقامات پر بھی فورس تعینات کی گئی۔  پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار مسلسل صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔  دوسری طرف اتوار کی شام ایس پی کرشنا کمار وشنوئی اور اے ڈی ایم پردیپ ورما نے فورس کے ساتھ مارچ کیا۔  لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل۔  ساتھ ہی کسی بھی افواہ پر دھیان نہ دینے کی اپیل کی۔

واضح رہے کہ شاہی مسجد کے صدر ایڈو کیٹ ظفر علی ابتدا سے ہی انتظامیہ اور پولیس کے نشانے پر تھے ۔ در اصل انہوں نے پولیس اہلکاروں پر ہی فائرنگ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تشد د کے دوران پانچ مسلمانوں کی موت کا ذمہ دار بھی انہوں نے پولیس اہلکاروں کی گولی باری کو ہی قرار دیا تھا جس کا نتیجہ ہے کہ یو پی ایس آئی ٹی نے خود ظفر علی کو ہی تشدد کی سازش میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔لوگوں نے صدر ظفر علی کی گرفتاری کو انتظامیہ کی  کھلی زیادتی  قرار دیا ہے۔