سعودی پاکستان دفاعی معاہدہ،مودی حکومت کی خارجہ پالیسی پرسوال
خارجہ امور پر نظر رکھنے والے ماہرین نے اٹھایا سوال ، سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے سر فراز کیا جانا خارجہ پالیسی کی مضبوطی کی ضمانت نہیں

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی،19 ستمبر :۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک دفاعی معاہدے کے بعد دنیا بھر میں ہلچل ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اس کے اثرات نمایاں طور پر نظر آئیں گے۔در اصل یہ معاہدہ ایک ایسے ماحول میں ہوا ہے جہاں خلیج میں حالات کشیدہ ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی ظلم و بربریت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔ابھی اس معاملے پر خلیجی ممالک ،امریکہ ،اسرائیل اور فلسطین کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ چل رہا تھا دریں اثنا اسرائیل کے ذریعہ ثالثی کا کردار ادا کرے والے عرب ملک قطر پر حملہ نے مزید حالات کو دیگر گوں کر دیا ہے ۔ اس حملے نے خطے کے تمام ممالک میں تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے ۔خوشحال اور مالا مال ملک کا امن و سکون غارت کر دیاہے ۔ حالیہ دنوں میں دوحہ سمٹ کے دوران تمام مسلم ممالک نے اس اچانک پیدا ہوئی صورت حال پر غور خوض کیا ہے ۔اس کے معاً بعد سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان یہ دفاعی معاہدہ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔جہاں اس کے اثرات مشرق وسطیٰ میں نظر آئیں گے وہیں ہندوستان پر بھی اس معاہدے کے اثرات مرتب ہوں گے۔
در اصل ہندوستان کے سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک سے رشتے مضبوط ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ پے در پے عرب ملکوں کے دورے نے یہ باور کرایا ہے ،کئی عرب ممالک کے شہری اعزازات سے بھی وزیر اعظم کو سر فراز کیا گیا ہے ۔متحدہ عرب امارات،کویت ،فلسطین اور خود سعودی عرب نے اپنے سب سے بڑے شہری اعزاز سے نوازا ہے ۔ان ممالک کے دوروں اور شہری اعزازات کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ان ممالک اور ہندوستا کے درمیان بہترین روابط اور تعلقات کا ثبوت قرار دیا ہے ۔ ایسی صورت میں سعودی عرب اور پاکستان کا دفاعی معاہدہ یقینی طور پر ہندوستان کے لئے فکر کا باعث ضرور ہے۔بلکہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر سوال اٹھنے لگے ہیں ۔متعدد ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ عرب ممالک کے دوروں کے بعد مرکزی حکومت یہ باور کراتی رہی ہے کہ یہ تمام ممالک ہندوستان کے ساتھ ہیں اور ان کے روابط ہندوستان سے مضبوط ہیں ۔ مگر سعودی اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ناکام ثابت ہوئی ہے ۔
ہندوستان نے اس دفاعی معاہدے پر محتاط رد عمل ظاہر کیا ہے ۔کسی بھی طرح کا تفصیلی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے ۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کا کہنا ہے کہ ’ہم اس پیشِرفت کے اپنی قومی سلامتی اور بین الاقوامی ستحکام پر مضمرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ حکومت ہند قومی مفادات کے تحفظ کے لیے پُر عزم ہے۔
معروف کالم نگار ڈاکٹر براہما چیلانی ‘Brahma Chellaney’ نے کہا کہ نریندر مودی نے گزشتہ چند سالوں میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔انہوں نے کہا کہ مودی نےتعلقات مضبوط بنانے کے حوالے سے سعودی عرب کے کئی دورے کیے لیکن سعودی ولی عہد نے غیرمتوقع سرپرائز دیا اور پاکستان کے ساتھ باہمی دفاع کا معاہدہ کر لیا اور اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ، دونوں پر حملہ تصور ہو گا۔
خارجہ امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سعودی اور پاکستان کے درمیان اس معاہدے سے نئی دہلی میں تشویش تو پائی جا رہی ہے ۔کیونکہ پاکستان ایک دشمن ملک ہے اور سعودی عرب سے ہندوستان کے روابط مضبوط ہیں۔دوست اور دشمن ملک میں معاہدہ تشویش تو پیدا کرتا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی امور کے ماہر قمر آغانے بتایا کہ ’اگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اب کوئی جنگ ہوتی ہے تو تب پاکستان کو ان سعودی ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہو گی جو ریاض نے واشنگٹن سے خریدے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے ہندوستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس کا دوست ملک ہے لیکن نئی دہلی ’چاہے گا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی تنازع کی صورت میں سعودی عرب اس معاملے سے دور رہے۔
در اصل یہ تمام خدشات دفاعی معاہدے کے اس شق سے پیدا ہو رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک ملک پر جارحیت دوسرے ملک پر جارحیت سمجھی جائے گی ۔ایسی صورت میں سعودی عرب کے لئے ہندوستان سے اپنی دوستی نبھانے کا چیلنج ہوگا۔کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آئے دن کشیدگی ہوتی رہتی ہے اور حالیہ پہلگا م حملے کے بعد یہ کشیدگی عروج پر ہے۔