سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں عید الفطر منائی گئی ،تباہ حال غزہ میں ملبے کے ڈھیر پر عید

نئی دہلی ،30 مارچ :۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت  فلسطین، قطر اور دیگر خلیجی ممالک میں  آج عیدالفطر منائی  گئی  ۔مسجدالحرام، مسجد نبوی ﷺ اور مسجد اقصیٰ میں نماز عید کے بڑے اور روح پرور اجتماعات ہوئے جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔مسجد الحرام میں امام کعبہ الشیخ عبدالرحمان السدیس نے نماز عید کا خطبہ اور امامت کروائی جبکہ مسجد نبویﷺ میں امام شیخ عبداللہ نے عیدالفطر کی نماز پڑھائی۔مسجدالحرام اور مسجد نبوی ﷺ میں نماز عید کے بعد خطبہ دیا گیا۔دبئی، قطر، بحرین، کویت، ترکیہ، یمن اور روس میں بھی آج عید منائی گئی ۔دریں اثنا تباہ حال غزہ میں بھی مظلوم فلسطینیوں نے ملبے کے ڈھیر پر عید کی نماز ادا کی ۔

دبئی کے علاقے القصص میں 15 ہزار افراد نے عیدالفطر کی نماز ادا کی جس  میں خواتین اور بچوں نے بھی شرکت کی، ابوظبی، شارجہ اور دیگر ریاستوں میں بھی نمازِ عید کے اجتماعات ہوئے۔دبئی میں توپ کے 2 گولے داغ کر نماز عید کا اعلان کیا گیا۔اس کے علاوہ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا میں مسلم کمیونٹی تقسیم ہے، بعض آج اور بعض پیر کو عید منائیں گے۔

جہاں عرب کے دیگر  ممالک میں جوش اور خروش کے ساتھ عید کی خوشیاں اور تقریبات کا اہتمام کیا گیا وہیں غزہ کے باشندوں نے ایک بار پھر ملبوں کے ڈھیر کے درمیان عید منائی اور اپنوں کو یاد کر کے غمزدہ ہوئے۔خیال رہے کہ اکتوبر 2023 میں اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد تباہ حال غزہ میں آج دوسری عید الفطر منائی  گئی۔عید کے خوشیوں بھرے موقع پر بھی اسرائیلی فورسز نے خان یونس پر فضائی اور زمینی حملے کر کے سفاکیت کی نئی مثال قائم کر دی۔

فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ عید کے ان لمحات میں ہم اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی نہیں خرید سکتے، روزگار کے مواقع پہلے ہی محدود ہیں اور کراسنگ پوائنٹس کی بندش نے مشکلات کو دگنا کر دیا ہے۔شہریوں نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں زندگی اجیرن ہو چکی ہے، کچھ لوگ کھانے کے قابل ہیں تو کچھ بھوک سے نڈھال ہیں، صرف اللّٰہ ہی جانتا ہے کہ یہاں کے لوگوں پر کیا گزر رہی ہے، دنیا سے ہمارا سوال ہے کہ کیا ہم انسان نہیں ہیں؟ کیا ہمارے بچوں کو بھی دنیا کے دیگر بچوں کی طرح خوش رہنے کا حق نہیں ہے؟

یاد رہے کہ غزہ پر جاری وحشیانہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 50 ہزار سے زائد بے قصور فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، غزہ کا بڑا حصہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے اور لاکھوں فلسطینی خیموں یا بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔