سرکاری فنڈ سے مذہبی تعلیم پر الہ آبادہائی کورٹ نے اٹھائے سوال، مرکز سے جواب طلب
آنے والے دنوں میں صرف امداد یافتہ مدارس ہی نہیں بلکہ آزاد مدارس بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں
نئی دہلی،02فروری :۔
ملک میں چل رہے مدارس کو ملنے والے سرکاری فنڈ پر اب سوال اٹھنے لگے ہیں ۔اس سلسلے میں کورٹ نے خود سوال اٹھایا ہے۔کورٹ کایہ سوال مدارس کے سلسلے میں آنے والے دنوں میں مصیبت اور پریشان کا سبب بن سکتا ہے۔بلکہ دینی اور مذہبی تعلیم فراہم کرنے والے مدارس کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک عرضی کے تحت عدالت میں کئی ایسے سوال اٹھائے گئے ہیں جو کافی الجھنیں آنے والے وقت میں پیدا کرسکتے ہیں -اس میں صرف امداد یافتہ مدارس ہی نہیں آئیں گے بلکہ آزاد مدارس بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ نے مرکزی وزارت تعلیم اورمرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے کہ کیا ریاست میں مذہبی تعلیم کی اجازت دینے والے آئینی اعتبارسے تعلیمی بورڈ ہوسکتے ہیں؟ جسٹس وویک چودھری اورجسٹس سبھاش ودیارتھی کی بینچ نے مدرسہ بورڈ اورمحکمہ اقلیتی امور، مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اوردیگرمتعلقہ محکموں کے ذریعہ مدرسہ کے انتظامیہ کے بارے میں کچھ موضوعات کواٹھانے والی ایک رٹ پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے یہ سوال پوچھا۔ اس ضمن میں مدرسہ بورڈ اوریوپی کی حکومت نے اپنا جواب داخل کردیا ہے۔ یوپی حکومت اورمدرسہ بورڈ کی جانب سے داخل کئے گئے حلف نامہ کو ریکارڈ پرلے لیا گیا ہے۔ اس پورے معاملے پرمدارس کے منتظمین میں تشویش کی صورتحال ہے اورتنظیمیں فکرمند ہیں۔
بینچ نے کہا کہ اسے امید ہے کہ مرکزی وزارت تعلیم کے ساتھ ساتھ مرکزی وزارت برائے اقلیتی اموربھی تحریری جواب داخل کرے گا اور مرکزی حکومت کے وکیل سدھانشو چوہان 2 فروری کوعدالت میں اس سے متعلق جواب دیں گے۔ عرضی میں یوپی کے مذہبی تعلیمی قانون پرسوال اٹھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی سرکاری فنڈ سے مذہبی تعلیم، مدرسہ بورڈ ایکٹ اورنصاب تعلیم کے تمام پہلوؤں پرسوال اٹھایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ عدالت اس معاملے میں 29 جنوری سے مستقل سماعت کررہی ہے۔ اس سے قبل مدرسہ بورڈ کو ریاست کے محکمہ تعلیم کے بجائے اقلیتی محکمہ کے تحت چلانے کی ضرورت پربھی مرکزی حکومت اوریوپی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔
واضح رہے کہ انشومن سنگھ راٹھورکے ذریعہ داخل کی گئی عرضی میں یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ، 2004 اوربچوں کو مفت اورلازمی تعلیم کا حق (ترمیم) ایکٹ، 2012 کے التزامات کوبھی چیلنج دیا گیا ہے۔ عدالت 29 جنوری، 2024 سے اس معاملے کی ہرروزسماعت کررہی ہے۔ اس میں مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اوریوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے ساتھ مختلف سوالات بھی اٹھائے ہیں۔