سرکاری سر پرستی میں ملک گیر سطح پر رام مندر تقریبات کا انعقاد دستور کے خلاف
ملک بھر میں سرکاری سطح پر منعقد کی جا رہی تقریبات پرسرکردہ ملی تنظیموں کا اظہار تشویش،مسلمانوں سے صبر و تحمل اور امن و امان بر قرار رکھنے کی اپیل،میڈیا اور سوشل میڈیا پر غیر ضروری مباحث سے پرہیز کا مشورہ
نئی دہلی،05 جنوری:۔
اتر پردیش کے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے ۔آئندہ 22 جنوری کو رام مندر میں پران پرتشٹھا کے پیش نظر بڑے پیمانے پر تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔مرکزی حکومت،یوپی حکومت اور ایودھیا انتظامیہ رام مندر سے متعلق مجوزہ تقاریب کو سرکاری سطح کے پروگرام کی طرح منعقد کرنے کیلئے سر گرم ہے۔خاص طور پر مرکز کی بی جے پی حکومت اس مذہبی تقریب کے ذریعہ سیاسی مفادحاصل کرنے کی پوری کوشش میں مصروف ہے۔بی جے پی کے ساتھ ساتھ اس کی ہم نوا بھگواتنظیمیں آر ایس ایس ،بجرنگ دل،وشو ہندو پریشد سمیت تمام حامی جماعتیں2024 کے عام انتخابات کے پیش نظر اکثریتی طبقہ کے ووٹروں کو سادھنے کی پوری تیاری میں ہیں۔
حکومتی سطح پر سیاسی مقاصد کے حصول پر مسلمانوں میں اضطراب کی کیفیت پائی جا رہی ہے ۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ملک کی سر کردہ اور سر گرم ملی تنظیموں نے تشویش کے اظہار کے ساتھ ساتھ صبر تحمل اور ملک میں امن و امان بر قرار رکھنے کی اپیل جاری کی ہے ۔ملی تنظیموں کےسر براہان نے مشترکہ بیان میں عین انتخابات سے قبل ملک گیر پیمانے پر تقاریب کے انعقاد اور سرکاری سرپرستی فراہم کرنے پر سوال اٹھائے ہیں اور اسے نہ صرف ملک کے سیکولر دستور کے خلاف قرار دیا ہے بلکہ منصفانہ انتخابات کی روح کے منافی بھی قرار دیا ہے ۔
مشترکہ بیان جاری کرنے والوں میں مولانا محمود اسعد مدنی،صدر جمعیۃ علمائے ہند،سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند،مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی،صدر آل انڈیا علما مشائخ بورڈ،مولانا احمد ولی فیصل رحمانی،امارت شرعیہ ،بہار جھارکھنڈ ،مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی،امیر جمعیت اہل حدیث،مولانا تنویر ہاشمی،صدر جماعت اہل سنت ،کرناٹک،عبد السلام پتی کے،محمد سلیم انجینئر،ملک معتصم خان،ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس،صدر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا،مجتبیٰ فاروق،مولانا شبیر احمد حسنی ندوی،مقبول احمد سراج کا نام قابل ذکر ہے ۔
اخبار کے نام جاری مشترکہ بیان میں بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہم مطمئن نہیں ہیں۔انہوں نے مشترکہ بیان میں کہا کہ کورٹ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس بات کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کت توڑ کر بنائی گئی تھی اور یہ کہ بابری مسجد کا تالہ توڑ کر اس میں مورتیاں رکھنے کا عمل اور پھر اس کی مسماری مجرمانہ کارروائیاں تھیں لیکن ان باتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود کورٹ نے محض عقیدے ککو بنیاد بنا کر مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے لئے دے دی۔
مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوششیں ہو سکتی ہیں لیکن ہمیں ان حالات سے ہرگز ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہے اور نہ صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے جانے دینا چاہئے اور ہمیں بخوبی سمجھنا چاہئے کہ ملک میں فرقہ وارانہ فضا کوبہتر بنائے رکھنا اور نفرتوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا اور اہل ملک پر سچائی کو واضح کرنا یہی ان مسائل کاحقیقی اور دیر پا حل ہے ۔ہمیں صبر اور استقامت کے ساتھ اس پر مسلسل کوشش کرنی ہے ۔
ملی تنظیموں کےسر براہان نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ مذہبی مقامات (خصوصی اہتمام) قانون 1991 کے موجود ہونے کے باوجود اس قانون کے سختی سے نفاذ سے متعلق سپریم کورٹ کی اپنے مذکورہ فیصلے میں یقین دہانی کے باوجود عدالتیں دیگر مسجدوں پر دعوؤں کی بھی سماعت کر رہی ہیں ۔یہ رویہ عدالتی نظام پر ملک کے انصاف پسند عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کا باعث بن سکتا ہے ۔
دریں اثنا ملی سر براہان نے رام مندر سے متعلق مجوزہ تقاریب کے پیش نظر مسلمانوں سے ملک میں امن و امان بر قرار رکھنے کی اپیل کی ۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوششیں ہو سکتی ہیں لیکن ہمیں ان حالات سے ہرگز ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہے اور نہ صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے جانے دینا چاہئے اور ہمیں بخوبی سمجھنا چاہئے کہ ملک میں فرقہ وارانہ فضا کوبہتر بنائے رکھنا اور نفرتوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا اور اہل ملک پر سچائی کو واضح کرنا یہی ان مسائل کاحقیقی اور دیر پا حل ہے ۔ہمیں صبر اور استقامت کے ساتھ اس پر مسلسل کوشش کرنی ہے ۔
دریں اثنا انہوں نے اس مسئلے پر میڈیا میں غیر ذمہ دارانہ بیانات اور اظہار خیال سے بھی پرہیز کرنے کی اپیل کی ۔اسی کے ساتھ سوشل میڈیا پر نا مناسب مباحث اور اشتعال انگیز ویڈیوز یا مواد کو فارورڈ کرنے سے بھی سختی سے گریز کرنے کی اپیل کی ۔