
سخت شرائط کے ساتھ برطانیہ کا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ
شرائط میں حماس کے ذریعہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کا غیر مسلح ہونا اور غز سے علیحدگی بھی شامل
لندن،30 جولائی:۔
فلسطین کے غزہ میں اسرائیلی ظلم بربریت کے انتہائی اور ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں بچوں کی بھکمری کی اطلاعات نے دنیا بھر میں ہلچل پیدا کر دی ہے ۔متعدد ممالک نے فلسطینی ریاست کے تعلق سے مثبت اشارے کئے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں برازیل نے فلسطین کو علیحدہ ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے اس کے بعد اب برطانیہ نے بھی سخت شرائط کے ساتھ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے کا عندیہ دیا ہے ۔
عالمی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی سمیت دیگر شرائط پر عمل نہ کیا تو برطانیہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لے گا۔برطانوی وزیرِ اعظم نے یہ بات کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہی۔
کابینہ کی میٹنگ کے ایک ہینڈ آؤٹ کے مطابق برطانیہ فلسطین کو بطور ریاست اس صورت میں تسلیم کرے گا اگر ’اسرائیلی حکومت نے غزہ کی بدترین صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اہم اقدامات نہ کیے، غزہ میں جنگ بندی نہ کی، مقبوضہ غربِ اردن کو اپنے ساتھ غیرقانونی طور پر ضم کیا اور دو ریاستی حل کے لیے ایک طویل المدتی امن مرحلے پر بات نہ کی۔
انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل اور حماس میں کوئی برابری نہیں ہے اور برطانیہ حماس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرے، جنگ بندی معاہدے پر دستخط کرے، تسلیم کرے کہ وہ غزہ کی کسی بھی حکومت میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے اور اپنا اسلحہ پھینک دیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سٹارمر اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے قبل صورتحال کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ آیا سٹیک ہولڈرز اس حوالے سے مثبت قدم اٹھائے ہیں جس کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔موجودہ صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے برطانوی وزیرِ اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھوکے بچوں کی تصاویر ہمارے ساتھ ’زندگی بھر کے لیے رہیں گی۔‘