سبھیندو ادھیکاری  کا مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان،لوگوں  میں غم و غصہ

بی جے پی رہنما نے بنگال کے ہندوؤں کو مشورہ دیا کہ کہ وہ ’’ایسی جگہوں پرجانے سے گریز کریں جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں‘‘  ٹی ایم سی بیان کی مذمت کی

 

کولکاتہ،12 جولائی :۔

بہار میں اسمبلی انتخابات کی گہما گہمی ہے اس کے بعد مغربی بنگال میں الیکشن ہونے والا ہے اس سے قبل بی جے پی کے سینئر رہنما فرقہ وارانہ بیان بازی سے ہندو مسلم منافرت کا بازار گرم کرنا شروع کر دیاہے۔اس سلسلے میں  بی جے پی کے سینئر رہنما اور مغربی بنگال کے قائد حزب اختلاف سبھیندو ادھیکاری  کا تازہ اور متنازعہ بیان سرخیوں میں ہے جس پر ہنگامہ برپا ہے ۔ سبھیندو ادھیکاری نے اپنے اس مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان میں  بنگال کے لوگوں کو مشورہ دیا  ہے کہ وہ ’’ایسی جگہوں پرجانے سے گریز کریں جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں‘‘۔

گزشتہ روز جمعرات کو ایک پریس سے بات چیت کے دوران کیے گئے ان کے  تبصرہ پر ہر طرف ہنگامہ برپا ہے ۔   ترنمول کانگریس (TMC) نے  اس حملے کی شدید مذمت کی ہے  جس نے ان پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور دہشت گردانہ پروپیگنڈے  کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔

رپورٹ کے مطابق پہلگام میں حالیہ دہشت گردانہ حملے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے دورہ بنگال کا حوالہ دیتے ہوئے، ادھیکاری نے کہاکہ”ان جگہوں پر مت جائیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، اگر آپ کشمیر جانا چاہتے ہیں تو اس کے بجائے جموں جائیں۔ آپ کی زندگی  ، اپنے بچوں، اپنی بہن، اپنی ماں کی زندگی کو بچانا اہم  ہے۔ ہماچل، دیو بھومی اتراکھنڈ، اوڈیشہ جائیں… لیکن مسلم اکثریتی علاقوں سے دور رہیں۔

ادھیکاری نے مزید اپنے تبصروں کو پارٹی لائن سے الگ کرنے کی کوشش کی، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ان کی "ذاتی رائے” ہے نہ کہ بی جے پی کے ایم ایل اے کے طور پر ان کا بیان ہے۔اس بیان پر ٹی ایم سی کی جانب سے شدید مذمت کی گئی۔ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر سخت الفاظ کے جواب میں، پارٹی نے کہا:”دہشت گردوں نے پہلگام پر حملہ کشمیر کی معیشت کو مفلوج کرنے کے لیے کیا، اور سبھیندو  بالکل وہی کچھ   کر رہے ہیں جو وہ  دہشت گرد چاہتے تھے۔ یہ فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کی ایک شرمناک مثال ہے۔

ٹی ایم سی نے بی جے پی پر ہندوستان کے سیکولر تانے بانے کو مٹانے کی کوشش کرنے کا بھی الزام لگایا اور زور دے کر کہا کہ اس طرح کی تفرقہ انگیز بیان بازی کی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

ریاستی وزیر ششی پنجا نے بھی ادھیکاری کے غصے کو عمر عبداللہ کے دورے سے جوڑتے ہوئے کہا، "وہ پریشان اور مایوس ہیں۔ مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آگئے ہیں۔ پھر اتنا خوف کیوں؟

ایک اور متنازعہ دعوے میں، ادھیکاری نے دہلی کی جئے ہند کالونی کے بنگالی بولنے والے باشندوں کو "روہنگیا مسلمان” کے طور پر حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ "کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ بنگالی نہیں ہیں، بلکہ روہنگیا ہیں جنہیں ووٹر فہرستوں سے نکالا جا رہا ہے۔ انہیں آدھار اور ای پی آئی سی کارڈ دکھانے دیں۔

ٹی ایم سی کے راجیہ سبھا ایم پی سمیر الاسلام، جو مائیگرنٹ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے صدر بھی ہیں، نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا:”یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ بی جے پی بنگالی مخالف ہے۔ وہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں بنگالی تارکین وطن – ہندو اور مسلمان دونوں – کو نشانہ بنا رہے ہیں۔  انہوں نے مرشد آباد سے تعلق رکھنے والے بنگالی ہندو مہاجر کارکن سوجن سرکار کے معاملے کا حوالہ دیا جس پر حال ہی میں اڈیشہ میں حملہ کیا گیا تھا ۔ اس واقعے نے فرقہ وارانہ سیاست، شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنانے، اور ہندوستان میں نقل مکانی اور مذہب کو سیاسی ہتھیار بنانے پر دوبارہ بحث شروع کر دی ہے۔