زرعی قوانین: وزیر زراعت نے کسانوں کو 8 صفحات پر مشتمل خط جاری کیا، وزیر اعظم نے کسانوں سے خط پڑھنے کی اپیل کی
نئی دہلی، دسمبر 18: جمعرات کے روز وزیر اعظم نریندر مودی نے احتجاج کرنے والے کسانوں سے مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کا خط پڑھنے کی اپیل کی، جس میں انھوں نے نئی قانون سازیوں کے فوائد کے بارے میں کسانوں کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے۔
مرکزی وزیروں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنماؤں امت شاہ، نرملا سیتارامن، پیوش گوئل اور جے پی نڈا سے ملاقات کے بعد تومر نے مشتعل کسانوں کو آٹھ صفحات پر مشتمل خط جاری کیا ہے۔
مودی نے ایک ٹویٹ میں کہا ’’وزیر زراعت نریندر تومر جی نے کسان بھائیوں اور بہنوں کو خط لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور ایک شائستہ مکالمے میں شامل ہونے کی کوشش کی ہے۔ میں تمام کسانوں سے خط پڑھنے کی درخواست کرتا ہوں۔ میں ملک کے عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ اس خط کو زیادہ سے زیادہ شہریوں تک پہنچانے میں مدد کریں۔‘‘
कृषि मंत्री @nstomar जी ने किसान भाई-बहनों को पत्र लिखकर अपनी भावनाएं प्रकट की हैं, एक विनम्र संवाद करने का प्रयास किया है। सभी अन्नदाताओं से मेरा आग्रह है कि वे इसे जरूर पढ़ें। देशवासियों से भी आग्रह है कि वे इसे ज्यादा से ज्यादा लोगों तक पहुंचाएं। https://t.co/9B4d5pyUF1
— Narendra Modi (@narendramodi) December 17, 2020
تومر نے کسانوں کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا ہے کہ زرعی قوانین کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنا ان کا فرض ہے، جس نے ملک بھر میں مظاہرے شروع کردیے ہیں۔ انھوں نے کسانوں سے اپیل کی کہ وہ اپوزیشن کے ’’سفید جھوٹ‘‘ پر یقین نہ کریں۔
وزیر زراعت نے ایک بار پھر کسانوں کو یقین دلایا کہ ایم ایس پی جاری رہے گی اور منڈی کے موجودہ نظام کو مزید مستحکم بنایا جائے گا۔ تومر نے لکھا ہے کہ وہ کسانوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے مسائل ہو سمجھتے ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے ’’نریندر مودی کی زیرقیادت حکومت نے پچھلے چھ سالوں میں کسانوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ حکومت نے نئے قوانین کے ذریعے کسانوں کو اپنی پیداوار جہاں بھی چاہیں وہاں بیچنے کی آزادی فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
تومر نے کسانوں کو یقین دلایا کہ ان کی ایک انچ بھی زمین نہیں چھینی جائے گی۔
تاہم اس خط میں کسانوں کے لیے کوئی تازہ تجویز نہیں تھی۔
اس سے قبل جمعرات کے روز سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال سے پوچھا کہ کیا دہلی کی مختلف سرحدوں سے کسانوں کو ہٹانے کی درخواستوں پر سماعت تک تینوں متنازعہ زراعت کے قوانین کو روکا جاسکتا ہے۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ احتجاج اس وقت تک آئینی ہے جب تک وہ جائیداد کو تباہ نہ کرے یا جان کو خطرہ نہ ڈالے۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ نے اس تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے دونوں فریقوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ بحران کو فوری طور پر حل کرنا ہوگا ’’بصورت دیگر یہ جلد ہی ایک قومی مسئلہ بن جائے گا‘‘۔
واضح رہے کہ سخت سردی کے درمیان کسان 23 دن سے دہلی کے قریب تینوں زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ وہ اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ حکومت ان تینوں قوانین کو منسوخ کرے۔