روہنگیا پناہ گزینوں کی جبری ملک بدری آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف
نائب امیر ، جماعت اسلامی ہند پروفیسر انجینئر سلیم نےروہنگیا پناہ گزینوں کی ملک بدری پر تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی،15 مئی :۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے روہنگیا پناہ گزینوں کی غیر انسانی اور جبری ملک بدری پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔میڈیا کے لیے جاری ایک بیان میں پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ہم 43 روہنگیا پناہ گزینوں، جن میں خواتین، بچے، بزرگ اور بیمار شامل ہیں، کی جبری ملک بدری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ معتبر میڈیا رپورٹس کے مطابق ان پناہ گزینوں کو آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پیر باندھ کر نئی دہلی سے پورٹ بلیئر منتقل کیا گیا اور 8 مئی 2025 کو انہیں میانمار کے ساحل کے قریب بین الاقوامی سمندر میں چھوڑ دیا گیا۔پروفیسر سلیم انجئنیر نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکام کی طرف سے متاثرین کو یہ کہا گیا کہ انھیں کسی محفوظ ملک منتقل کیا جا رہا ہے۔ جب یہ پناہ گزیں تیر کر ساحل پر پہنچے تو ان کو پتہ چلا کہ وہ دوبارہ اسی ملک میں واپس پہنچ چکے ہیں جہاں سے وہ نسل کشی سے بچنے کے لیے فرار ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ بات سچ ہے تو یہ بھارت کے آئینی اور انسانی اصولوں سے ایک افسوسناک اور شرمناک انحراف ہے۔پروفیسر سلیم انجینئر نے مزید کہا کہ ہم حکومت کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ بھارت نے اقوام متحدہ کے کنونشن اگینسٹ ٹارچر کے منشور پر دستخط کئے ہیں جو ‘ریفیولمنٹ’ یعنی کسی شخص کی ایسی جگہ جبری واپسی کی ممانعت کرتا ہے ، جہاں اس کی جان یا آزادی کو خطرہ لاحق ہو۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے روہنگیا کو نسل کشی کا شکار قرار دیا ہے۔ ایسے میں انہیں میانمار واپس بھیجنا بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور اخلاقی ذمہ داریوں سے فرار کے مترادف ہے۔
جن افراد کو ملک بدر کیا گیا وہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (UNHCR) کے ساتھ رجسٹرڈ تھے اور ان کے پاس با قاعدہ شناختی کارڈز موجود تھے۔ ان کی جبری ملک بدری بین الاقوامی انسانی اصولوں اور بھارت کی تاریخ میں مظلوموں کے لیے پناہ گاہ کے کردار کے خلاف ہے۔ انسانوں کو مجرموں کی طرح ملک بدر کرنا وہ بھی سمندر میں ان کی جان خطرے میں ڈال کر، غیر انسانی اور ناقابل قبول ہے۔ ہم حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر روہنگیا پناہ گزینوں کی جبری ملک بدری کے سلسلے کو روکاجائے، ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں اور ظلم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹگھرے میں لایا جائے۔
پروفیسر سلیم نے کہا کہ ہم عدلیہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے آئین کی دفعہ 21 کے خلاف ہوئی اس کاروائی کا از خود نوٹس لے اور مظلومین کو تحفظ فراہم کرے۔