روہنگیا ؤں کی  جبراً ملک بدری کے خلاف حقوق انسانی کارکنان کا احتجاج

 ملک بدری کو غیر قانونی اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے کارروائی کرنے پر زور دیا

 

نئی دہلی،21 مئی :۔

روہنگیائی پناہ گزینوں کے تعلق سے جبر اً ملک بدری کی گزشتہ دنوں ایک اندوہناک خبر آئی جس نے پوری انسانی برادری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔روہنگیاؤں کی مظلومیت سے ہر شخص واقف ہے ۔ کہا جاتا ہے دنیا میں سب سے زیادہ ستائی گئی قوم روہنگیا پناہ گزینوں کی ہے ۔روہنگیاؤں کے حالات کو لے کر گزشتہ دنوں پیر کو پریس کلب آف انڈیا میں  قانونی ماہرین، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکنان   جمع ہوئے اور ان مظلوم روہنگیاؤں کیلئے آواز بلند کی ۔

ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کے زیر اہتمام پریس کانفرنس میں حکومت ہند اور سپریم کورٹ دونوں پر زور دیا گیا کہ وہ اس بحران سے نمٹنے میں آئینی اور انسانی اصولوں کو برقرار رکھیں۔

چونکہ ملک بھر میں روہنگیا پناہ گزینوں کی حراست اور ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے، مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو مہاجرین کے ساتھ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 21 کے مطابق برتاؤ کرنا چاہیے، جو شہریت سے قطع نظر تمام افراد کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ انہوں نے مزید اصرار کیا کہ کسی بھی ملک بدری یا حراست کو قانونی عمل اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات پر عمل کرنا چاہیے۔

"بریکنگ دی سائیلنس: جسٹس فار روہنگیا ” کے عنوان سے منعقدہ اس تقریب میں نمایاں آوازیں شامل تھیں جن میں سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن اور کولن گونسالویس، صحافی پامیلا فلیپوس، امن کارکن ڈاکٹر ہرش میندر، اور ساؤتھ ایشیا فورم فار ہیومن رائٹس (ایس اے ایف ایچ آر) اور آزادی پروجیکٹ کے نمائندے شامل تھے۔

ہندوستان میں روہنگیا کی زندگی کی تلخ حقیقت کو بیان کرتے ہوئے، ڈاکٹر مندر نے کہا کہ تقریباً 22,500 افراد کی ایک چھوٹی سی کمیونٹی ہونے کے باوجود (اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق) روہنگیا پناہ گزینوں  سے نفرت کیا جاتا ہے۔ "ان کی بستیاں غریب ترین ہندوستانی کچی آبادیوں سے بھی بدتر ہیں۔ بہت سے لوگ کچرا بیچ کر گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ قانونی شناخت سے انکار، انہیں اکثر جیلوں سے زیادہ ظالمانہ حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ رہائی کا کوئی واضح راستہ نہیں ہے، کیونکہ پڑوسی ممالک انہیں لینے سے انکار کرتے ہیں۔

بھوشن نے  اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سوال کیا کہ   کیا ہندوستان اب بھی ان اقدار کو مجسم بناتا ہے جس کا وہ دعویٰ کرتا ہے — واسودھیو  کٹمبکم (دنیا ایک خاندان ہے) اور جمہوریت۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ "میانمار میں نسل کشی کا سامنا کرنے کے باوجود، روہنگیا کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے، قانونی تحفظات سے انکار کیا گیا ہے، اور بعض صورتوں میں انہیں سمندر میں بھی گرا دیا گیا ہے۔

تمام مقررین نے روہنگیا پناہ گزینوں کے ساتھ غیر انسانی اور غیر قانونی سلوک کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالتی اور سول سوسائٹی کی مداخلت کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ قدم اٹھائے اور ریاست کو اس کی آئینی، قانونی اور انسانی ذمہ داریاں یاد دلائیں۔

مقررین نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ ہندوستان جیسے جمہوری اور آئینی ملک میں پناہ گزینوں کو انصاف سے محروم رکھنا نہ صرف آئینی اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی ضمیر پر بھی سوالیہ نشان ہے ۔پریس کانفرنس کے دوران بتایا گیا کہ حالیہ دنوں میں درجنوں روہنگیا پناہ گزینوں کو آنکھوں پر پٹیاں  اور ہاتھ پیر باندھ کر نئی دہلی سے پورٹ بلیئر منتل کیا گیا جہاں سے انہیں میانمار کے ساحل کے قریب بین الاقوامی سندر یں چھوڑ دیا گیا ۔ مقررین نے اس عمل کو غیر انسانی غیر قانونی اور بین الاقوامی اصولوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ۔مقررین نے متفقہ طور پر حکومت ہند سے پر زور مطالبہ کیا کہ اروہنگیا پناہ گزینوں کی حراست اور جبری ملک بدری کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے اور انہیں انسانی ،قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ بھی وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔