روحانی ،اخلاقی اور جمالیاتی اقدار کے حامل فن اور آرٹ جذبات کے اظہار کا مضبوط ذریعہ ہیں:امیر جماعت

اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے زیر اہتمام النور لٹریچرل فیسٹیول اختتام پذیر،سیکڑوں شائقین کی فیسٹیول میں شرکت،فلسطینیوں کی جدو جہد ،غزہ کے حالات  پر مبنی نمائش ،شاندار اسلامی فن خطاطی ،بک اسٹال توجہ کا مرکز رہے  

نئی دہلی،24 دسمبر :۔

روحانی ،اخلاقی اور جمالیاتی اقدار کے حامل فن اور آرٹ جذبات کے اظہار کا مضبوط ذریعہ ہیں۔مذکورہ خیالات کا اظہار جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے یہاں مرکز جماعت اسلامی ہند کے دفتر میں منعقدہ اسٹوڈینٹس اسلامک آر گنائزیشن آف انڈیا کے زیر اہتمام منعقدہ النور لٹریچر فیسٹیول کے اختتامی پروگرا م صدارتی خطاب کے دوران کیا ۔اس موقع پر انہوں نے اس شاندار فیسٹول کے انعقاد کے لئے تمام ذمہ داران کو مبارکباد پیش کیا ۔

جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے صدر دفتر نئی دہلی میں  منعقدہ اس شاندار فیسٹیول میں 1500 سے زائد حاضرین نے شرکت کی  ،مباحثوں میں حصہ لیا اور اسلامی فن اورشاندار خطاطی نمائش کا لطف اٹھایا۔لٹریچر فیسٹیول میں خاص طور پر نمائش شائقین کی توجہ کا مرکز رہی جس میں   آزادی کے لیے فلسطینیوں کی  جدو جہد، غزہ کی قربانیوں، شاندار اسلامی خطاطی، اور ہندوستان میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے جاری جدوجہد پر روشنی ڈالی گئی۔

انور لیٹرچر فیسٹیول کے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت نے بغیر ملبوسات والی پینٹنگز کی مثال دیتے ہوئے واضح کیا کہ مغربی تہذیب میں اسے فن تصور کیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی تہذیب میں اسے کبھی بھی فن اور آرٹ شمار نہیں کیا جا سکتا   کیونکہ اس سے ان روحانی اور اخلاقی اقدار کو ٹھیس پہنچتی ہے جن کو فن کو برقرار رکھنا چاہیے۔

انہوں نے ایک اور تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ غیر پرکشش اور نامعقول طریقے سے تعمیر کی گئی مسجد کو آرٹ کا شاہکار نہیں کہا جا سکتا انہوں نےاس بات پر زور دیا کہ اسلامی فن میں حقیقی فنکارانہ اظہار کے لیے تینوں اقدار روحانی، اخلاقی اور جمالیاتی ضروری ہیں۔ تینوں اقدار کی یکساں اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ خوبصورتی سے تیار کی گئی عمارت اگر غریبوں کے گھروں کو اکھاڑ کر تعمیر کی جائے یا کسی غیر منصفانہ جگہ پر رکھی جائے تو اسے اسلام میں فن کا شاہکار نہیں قرار دیا جا سکتا، کیونکہ اس  میں اخلاقی اور روحانی دونوں اصولوں اور اقدار کی   خلاف ورزی ہوتی ہے۔

قرآنی آیات اور اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے امیر جماعت نے  اس بات پر زور دیا کہ اسلام نہ صرف فن بلکہ انسانی زندگی اور عمل کے تمام پہلوؤں میں جمالیات کو اہمیت دیتا ہے۔ انہوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، اس نے کائنات، زمین اور تمام مخلوقات کو بہترین طریقے سے تخلیق کیا ہے۔

انہوں نے  ے عباسی دور میں بغداد میں آٹھویں صدی کے ایوانِ حکمت (بیت الحکمہ) کی ایک اور مثال دی، جس نے دنیا، معاشرے اور یہاں تک کہ آنے والی نسلوں کو بھی گہرا اثر ڈالا۔ انہوں نے علامہ اقبال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ   علامہ اقبال کی شاعری  نے برصغیر پاک و ہند کے افکار و فکر پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں اور موجودہ اسلامی تہذیب دونوں پر عظیم اسلامی مفکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے گہرے اثرات کے پیچھے چھپے راز کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے اس کے پس پردہ ان کی تحریر کی جمالیاتی فن، منطقی وضاحت کو قرار دیا۔

خیال رہے کہ یہ لٹریچر فیسٹیول 20 دسمبر سے22 دسمبر تک جاری رہے۔ جس میں مختلف سیشن میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا جس میں ادبی ،سماجی ،سیاسی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات اور افراد نے شرکت کی اور مباحثوں میں حصہ لیا۔اس لیٹریچر فیسٹول کی سب سے دلکش خصوصیت اس کی نمائش تھی جس میں فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی اور غزہ کے لوگوں کی الاقصیٰ کو آزاد کرانے کی جدوجہد میں قربانیوں کو واضح طور پر دکھایا گیا تھا۔ نمائش کی ایک پُرجوش خاصیت عظیم فلسطینی  مجاہد اور حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کے آخری لمحات کی نمائش تھی۔

اس دوران النور لٹریچر فیسٹیول کی ایک تصویر وائرل ہوئی  جس میں جماعت اسلامی کے امیر   سید سعادت اللہ حسینی کو یحیٰ سنوار کی شکل میں  کرسی پر بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ تصویر میں امیر جماعت نے چھڑی پکڑی ہوئی ہے اور ایک فلسطینی "رومال” (سر پر اسکارف) پہنا ہوا ہے، جو سنوار کے آخری لمحات کی یاد دلاتا ہے۔ اس تصویر نے خاصی توجہ حاصل کی ہے، جو فلسطینی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کی علامت ہے اور غزہ کے انصاف کے لیے جدوجہد کے حامیوں کے ساتھ گونج رہی ہے۔