رمضان کے روزے تقویٰ، مواسات، صبرو استقامت اور جدو جہد کی بہترین مشق ہیں
ملک کے موجودہ حالات میں ہمیں صبر و استقامت کی ضرورت ،جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر میں منعقدہ افطار پروگرام میں امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی کا اظہار خیال

نئی دہلی،15 مارچ :۔
جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں منعقدہ ایک افطار پروگرام میں امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ رمضان کا مبارک مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے اورہم سب اس کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اس مبارک مہینے کو ماہِ قرآن کہا گیا ہے ۔ اسی لیے ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ اس ماہ میں قرآن سے ہمارا تعلق زیادہ سے زیادہ گہرا اور مضبوط ہو۔ یہ ماہِ تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے حصول کے لیے روزے کی فرضیت ہوئی ہے ۔ قرآن نے کہا ’’ تم پر روزے فرض کیے گئے تاکہ تقویٰ والے بن جاؤ‘‘۔ قرآن کے اس حکم کے مطابق ہم سب اس صفت کو اپنے اندر پروان چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس مبارک ماہ کو ماہ مواساۃ اور ماہ صبر بھی کہا گیا ہے۔ رمضان کی یہ تمام خصوصیات ہمارے سامنے رہنی چاہئے، اور مسلمان حتی المقدور اس پر توجہ بھی دیتے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں ایک پہلو ایسا بھی ہے جو اہم ہونے کے باوجود اس پر توجہ کم دی جارہی ہے۔ وہ ہے استقامت ۔ یہ ماہ استقامت ہے۔ اس مہینے میں اللہ مومنین کو قرآنی اصولوں اور ایمانی تقاضوں پر استقامت یعنی ثابت قدم رہنے کی تربیت فرماتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسی نصیحت فرمایئے کہ اس کے بعد پھر کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے۔
دراصل وہ صحابی اختصار کے ساتھ اسلام کا خلاصہ معلوم کرنا چاہتے تھے۔ اللہ کے رسول نے ایک جملے میں اسلام کا خلاصہ بیان فرما دیا ’’ کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جاؤ‘‘۔ تو ایمان پر استقامت یعنی ڈٹ جانے کا نام اسلام ہے ۔ اس ماہ میں بھوک و پیاس اور خواہشات پر قابو پا کر اسی استقامت کی مشق کی جاتی ہے۔اس استقامت کو ساری زندگی چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان اس کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اسی طرح یہ مہینہ ماہِ جدو جہد ہے۔ یہ صبر و مشقت کا مہینہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ متعدد غزوات اسی ماہ میں ہوئے۔ غزہ بدر و اُحد جیسی جنگیں اسی ماہ میں ہوئیں۔ جنگ خندق کا بڑا حصہ اسی ماہ میں گزرا، تبوک سے واپسی اسی ماہ میں ہوئی۔ ان غزوات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول اس ماہ مبارک میں جہاں عبادت، تلاوت ، قیام اللیل کے لیے کمر کس لیتے تھے، وہیں یہ تصویر بھی سامنے آتی ہے کہ آپ نے عرب کے تپتے صحراؤں سے گزر کر اہم معرکے ، مہمات اور غزوات اس ماہ میں انجام دیئے۔
امیر جماعت نے کہا کہ ہم نے اس موقع پر استقامت اور جدو جہد کا خاص طور پر اس لیے تذکرہ کیا ہے کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں صفات یعنی استقامت اور جدو جہد کی ہمیں خاص طور پر ضرورت ہے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، مشکلات جتنی بھی ہوں، ہمیں اپنے اصولوں پر پوری استقامت کے ساتھ ڈتے رہنا چاہئے ۔ ہمیں اپنے ایمان پر اپنے عقیدے پر جمنا ہے۔ اپنے مقصد اور نصب العین پر جمنا ہے ۔ اس کے لیے جو قربانیاں درکار ہوں، جس محنت و مشقت کی ضرورت ہو، اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان ان مشکلات پر قابو اسی وقت پا سکتے ہیں ، اور آزمائشوں کی گھڑی سے اسی وقت سرخرو ہو کر نکل سکتے ہیں ، جب یہ دونوں صفات اپنے اندر پیدا کرلیں گے۔ تو استقامت اور جدو جہد کو ہمیں اس ماہ میں خاص طور پر یاد رکھنا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ دیگر مطالبوں کے ساتھ ان دو صفات کو بھی خاص طور پر اختیار کریں۔ ہمارے سامنے عبادت کی ظاہری شکل نہیں بلکہ اس کی روح اور اصل مقصد پیش نظر ہو، اللہ ہم میں تقویٰ، صبر و مواسات اور استقامت و جدو جہد کی صفات پیدا کرے ، آمین۔‘‘ افطار کے اس روح پرورموقع پرتقریبا آٹھ سو مہمانوں میں شہر کی سیاسی ، سماجی ودیگر معز ز شخصیات شامل تھیں ۔