رام مندر کے بعد نئے تنازعات ہم آہنگی کے لئے نقصان دہ ہیں

  آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی  مندر-مسجد تنازعات کے دوبارہ سر اٹھانے پر تنقید، اورنگ زیب کا ذکر کر کےمسلمانوں کو بھی بالواسطہ نصیحت

نئی دہلی ،20 دسمبر :۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت  ایک بار پھر ملک میں اتحاد اور برابری پر زور دیا ہے اور مندر مسجد تنازعہ پر تنقید کی ہے۔ہندوستان میں مندر اور مسجد کے تنازعات  کے درمیان ان کا یہ بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے جہاں مندر مسجد تنازعہ کو ہواد ینے والوں کی سرزنش کی ہے وہیں انہوں نے مسلمانوں کو بھی با لواسطہ نصیحت کرتے ہوئے اتحاد اور برابری پر زور دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق  پونے میں "انڈیا – دی وشو گرو” پر ایک لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگ نئے تنازعات کو ہوا دے کر خود کو ہندوؤں کے لیڈر کے طور پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس طرز عمل کو ناقابل قبول اور ملک کی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا، ’’ہم ایک طویل عرصے سے ہم آہنگی سے رہ رہے ہیں۔ اگر ہم دنیا کو یہ ہم آہنگی فراہم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کا نمونہ بنانا ہوگا۔ انہوں نے مسلسل نئے تنازعات پیدا کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہر روز ایک نیا معاملہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہ جاری نہیں رہ سکتا۔ ہندوستان کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ عدالت میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بہت سی مساجد مندر ہیں، تاہم آر ایس ایس کے سربراہ نے کسی خاص تنازع کا ذکر نہیں کیا۔

ان کے تبصرے مساجد کے سروے کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔ان مطالبات نے عدالتوں میں اپنا راستہ تلاش کر لیا ہے، جس کے نتیجے میں 12 دسمبر کو سپریم کورٹ کا ایک حکم نامہ سامنے آیا جس میں نچلی عدالتوں کو مساجد کے سروے کے نئے مقدموں یا احکامات پر پابندی لگا دی گئی۔

آر ایس ایس کے سربراہ نے ہندوستان کی آئینی اقدار پر بھی روشنی ڈالی، یہ کہتے ہوئے کہ "ملک آئین کے مطابق چلتا ہے۔” انہوں نے خاص طور پر بلا واسطہ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ  بالا دستی کا  دور ختم ہو چکا ہے، اب لوگ اپنے نمائندے منتخب کر رہے ہیں جو ملک کے قوانین کے مطابق حکومت کریں۔ بھاگوت نے اس کا موازنہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے دور حکومت سے کیا، جسے انہوں نے شدت پسند اور تقسیم پسند حکومت کی علامت قرار دیا۔ تاہم، انہوں نے نشاندہی کی کہ ان کی اولاد بہادر شاہ ظفر نے 1857 میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی تھی۔

بھاگوت نے کہا، ’’یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایودھیا میں رام مندر ہندوؤں کو دیا جائے لیکن انگریزوں نے اسے محسوس کیا اور دونوں برادریوں کے درمیان دراڑ پیدا کردی۔‘‘۔بھاگوت نے  بالا دستی کو فروغ دینے والی زبان کے استعمال پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ تمام ہندوستانی خواہ ان کا پس منظر کچھ بھی ہو برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کون اقلیت ہے اور کون اکثریت؟ یہاں سب برابر ہیں۔ اس قوم کی روایت یہ ہے کہ سب اپنی اپنی عبادتوں پر عمل کر سکتے ہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم آہنگی سے رہیں اور قواعد و ضوابط کی پابندی کریں۔