رام لیلا میدان سے مولانا محمود مدنی کی بی جے پی اور آر ایس ایس کو متحدہ قومیت کی دعوت

دہلی کے رام لیلا میدان میں منعقدہ جمعیۃ علماء ہند کی 34ویں اجلاس عام میں خطاب کے دوران مولانا مدنی نے ترکی کے لئے امداد ی ٹیم بھیجنے پر مودی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔

نئی دہلی، 11 فروری :
جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے راجدھانی دہلی کے رام لیلا میدان میں منعقدہ جمعیۃ علماء ہند کی 34ویں جنرل کانفرنس میں آر ایس ایس اور بی جے پی کو اپنی تمام رنجشیں بھلا کر ایک دوسرے سے گلے ملنے کی دعوت دی۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علمائے ہند کی راجدھانی دہلی کے رام لیلا میدان میں سہ روزہ 34 ویں جنرل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں بڑی تعداد میں مسلمان شریک ہو رہے ہیں۔آج پروگرام کا دوسرا دن تھا۔
جمعیۃ کے صدر مولانا محمد مدنی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آرایس ایس کے سر سنگھ چالک شری موہن بھاگوت جی اور ان کے متبعین کوگرم جوشی کے ساتھ دعوت دیتے ہیں کہ آئیے آپسی بھید بھائو اور بغض و عناد کوبھول کر اپنے پیارے وطن کو دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ، پر امن ،مثالی اور سپر پاور ملک بنائیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے موجود ہ حالات میں جو لوگ بھی باہمی رشتوں کو استوار کرنے کے لیے ڈائیلاگ اور ایک دوسرے کے افکار و نظریات کو سمجھنے کے لیے کوشاں ہیں ، ہم ان کا استقبال کرتے ہیں اور ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ باہمی گفت و شنید ہی تمام مسائل کا حل ہے یا کم ازکم مسائل کو بڑھنے سے روکنے کا ذریعہ ہے ، اس لیے اس کا راستہ کبھی بند نہیں ہو نا چاہیے ۔اپنے بھائیوں اور پڑوسیوں سے قطع تعلق کی اسلام میں ہرگز اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیۃ کے اکابر نے برادران وطن کے ساتھ دوش بدوش چلنے اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی روش اختیار کی اور جمعیۃ آج بھی اسی روش پر مضبوطی سے قائم ہے۔متحدہ قومیت اور ہندو مسلم یک جہتی کا فکر و فلسفہ جمعیۃ کے اکابر کی عطا کردہ وراثت ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں سناتن دھرم کے فروغ سے کوئی شکایت نہیں ہے اور نہ ہی آپ کو اسلام کی اشاعت سے کوئی شکایت ہونی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوتوا کی غلط تعریف بتا کر جارحانہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کے خلاف واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ سب کچھ حکومتوں کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے حتیٰ کہ حکومتیں بھی اسے اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہیں جتنی سنجیدگی سے لینی چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ ہم پاکستان گئے ہوتے یا بھیج دیئے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ نہ آپ نے ہمیں بلایا ہے ہے اور نہ ہی آپ کے کہنے سے ہم نکلیں گے ۔ ہمارے آباؤ اجداد نے چٹائیوں پر بیٹھ کر برطانوی راج کے خلاف احتجاج کیا جس کی حکومت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔
اس موقع پر مولانا مدنی نے مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کی بھی تعریف کی ۔ انہوں نے کہا کہ ترکی اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلوں کے لیے این ڈی آر ایف کی ٹیمیں اور امدادی سامان بھیجنا وزیر اعظم مودی کا ایک خوش آئند قدم ہے۔ پڑوسی ممالک سے بھی ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ بنگلہ دیش اور افغانستان اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے ترکی اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے متاثرین کی مدد کے لیے جمعیۃ کی جانب سے ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امدادی سامان اور وہاں جانے کے خواہشمند لوگوں کے لیے سنگل ونڈو قائم کرے اور امدادی کاموں میں مدد کرے۔

Jamiat Ulama-i- Hind 34th General session

محمود مدنی نے ملکی معیشت پر اپنا نکتہ نظر رکھتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہم اس پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن یہ سچ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں خلیجی ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانی اہم کردار ادا کر رہے ہیں جن میں 85 فیصد مسلمان ہیں۔ مولانا مدنی نے بھی مودی حکومت کی طرف سے پسماندہ مسلمانوں کی بہتری کے لیے اٹھائے گئے اقدام کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک دیر سے لیکن اچھا قدم ہے۔ اس موقع پر انہوں نے مطالبہ کیا کہ پہلے بنائے گئے کمیشنوں کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے اور دفعہ 341 میں ترمیم کرکے پسماندہ مسلمانوں کو بھی فائدہ پہنچایا جائے۔
اس موقع پر انہوں نے مذہبی پیشواؤں کے احترام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی پیشواؤں کی شان میں لکھے گئے نفرت انگیز تحقیر آمیز مضامین اور نعرے مسلمانوں اور ملک کے دیگر باشعور لوگوں، گروہوں کے لیے تکلیف دہ ہیں۔ اسلامو فوبیا ہمارے ملک میں سماجی اتحاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں نفرتوں کو دور کرنے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے صرف مکالمہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایک ایسے پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے جہاں مختلف فرقوں اور برادریوں کے لوگ سماجی سطح پر ایک دوسرے سے بات چیت کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی خیال کے ساتھ جمعیۃ نے سدبھاونا منچ قائم کیا ہے۔
یکساں سول کوڈ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ بار بار اٹھایا جاتا رہا ہے۔ جمعیۃ سمیت دیگر مسلم تنظیموں اور اداروں کے احتجاج کے بعد اسے سرد خانے میں ڈال دیا جاتا ہے، لیکن پھر سیاسی فائدے کے لیے اسے بار بار سامنے لایا جاتا ہے۔
اس موقع پر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارے کھولنے اور کشمیر کی موجودہ صورتحال پر قرارداد سمیت کئی دیگر اہم قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مسلم لڑکیاں تعلیم کے میدان میں پہلے ہی پسماندہ ہیں، جمعیت کے کنونشن نے کہا کہ حجاب تنازعہ نے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس لیے ہمیں لڑکیوں کے لیے الگ ادارے کھولنے ہوں گے۔واضح رہے کہ رام لیلا میدان میں آج کانفرنس کا دوسرا دن تھا اور کل اتوار کو آخری اور اختتامی دن ہوگا۔