راجیہ سبھا میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش 

راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل کی قیادت میں راجیہ سبھا کے 55 ارکان پارلیمنٹ نے تجویز پیش کی ،پارلیمنٹ کے رواں سرمائی اجلاس میں غور کیا جائے گا

نئی دہلی، 13 دسمبر:۔

حال ہی میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو کے دئے گئے متنازعہ بیان  پر ہنگامہ جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے جہاں تین دن قبل جسٹس شیکھر کمار یادو کی متنازعہ تقریر کا نوٹس لیا ہے، وہیں آج راجیہ سبھا کے 55 ارکان پارلیمنٹ نے ان کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کی ہے۔

راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل کی قیادت میں سماج وادی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے مسلمانوں کے خلاف ان کے نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیان پرر راجیہ سبھا کے سکریٹری جنرل کے سامنے جسٹس شیکھر کمار یادو کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کی ہے۔ 55 ارکان پارلیمنٹ کے دستخط شدہ اس تجویز پر پارلیمنٹ کے رواں سرمائی اجلاس کے دوران غور کیا جائے گا۔

یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جسٹس یادو کی طرف سے دی گئی تقریر پہلی نظر میں نفرت انگیز تقریر ہے اور فرقہ وارانہ انتشار کو فروغ دیتی ہے، جو ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ تحریک میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ جسٹس یادو نے اپنے تبصروں کے ذریعے اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تحریک میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس یادو نے یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) سے متعلق سیاسی معاملات پر عوامی طور پر اظہار خیال کرکے عدالتی اقدار سے متعلق، 1997 کے ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے۔مواخذے کی تحریک کے ذریعے ارکان پارلیمنٹ نے راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ سے درخواست کی ہے کہ وہ ججز (تحقیقات) ایکٹ 1968 کے مطابق نفرت انگیز تقریر، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور عدالتی اخلاقیات کی خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں اور اگر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو جسٹس یادو کو عہدے سے ہٹانے کے لیے مناسب کارروائی شروع کرنے کے لیے صدر جمہوریہ کو ایک تجویز بھیجیں۔

راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم نے راجیہ سبھا کے جنرل سکریٹری کو الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو کے خلاف مواخذے کا نوٹس دیا ہے۔ انہوں نے 9 دسمبر کو اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جج کو اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اور ہم نے جج کو ہٹانے کی تجویز پیش کی ہے جو آئین اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ وزیر اعظم مودی، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور حکمراں پارٹی کے لیڈروں سے گزارش کی کہ وہ آئین کے تحفظ میں ہمارا ساتھ دیں اور سپریم کورٹ کو بھی جج کو ہٹانے کا حکم دیا جائے۔ ”

قابل ذکر ہے کہ جسٹس یادو کے متنازعہ ریمارکس حال ہی میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے قانونی سیل کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں ایک تقریر کے دوران دیے گئے تھے۔ جج نے مسلمانوں کے خلاف اہانت آمیز بیان دیا تھا اور کہا تھا کہ ہندوستان اکثریتی طبقے کی خواہشات کے مطابق کام کرے گا۔ انہوں نے "کٹھ ملا” کا لفظ بھی استعمال کیا جو مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو، جو متنازعہ ریمارکس دے کر سرخیوں میں آئے تھے، انہیں اہم مقدمات کی سماعت سے ہٹا دیا گیا ہے۔ 16 دسمبر سے شروع ہونے والے الہ آباد ہائی کورٹ کے نئے روسٹر کے مطابق جسٹس شیکھر کمار یادو اب صرف نچلی عدالت سے آنے والے مقدمات اور 2010 سے پہلے عدالت میں آنے والے مقدمات کی سماعت کریں گے۔ جسٹس شیکھر یادو پہلے عصمت دری جیسے حساس مقدمات کی سماعت کرتے تھے، جس پر اب پابندی لگا دی گئی ہے۔ ان کے متنازعہ بیان کے بعد سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ سے اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ سپریم کورٹ نے میڈیا میں جسٹس شیکھر یادو کے بیانات کا ازخود نوٹس لیا تھا۔