راجستھان کے اسکولوں میں اردو کی جگہ سنسکرت نافذ کرنے کا حکم،اردو اساتذہ میں ناراضگی

نئی دہلی،20 فروری :۔

راجستھان میں بی جے پی حکومت کے ذریعہ راجستھان کے کچھ اسکولوں  میں اردو کی جگہ سنسکرت کو تیسری زبان اور اختیار مضمون کے طور پر شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جس پر  راجستھان کے اردو اساتذہ نے ریاست کی بی جے پی حکومت کے اس فیصلے پر اپنے شدید غم وغصے کا اظہار کیا ہے ۔حکومت کے اس متنازعہ اقدام کے خلاف اردو اساتذہ نے سخت احتجاج کیا ہے اردو لسانی اقلیتوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کرنے کا الزام  عائد کیاہے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 3 ؍فروری کو سوریہ سپتمی تہوار کے موقع پر تمام اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ بی جے پی حکومت نے دعویٰ کیا کہ پچھلے تعلیمی سال بھی یہ حکم لاگو کیا گیا تھا۔ اس بار 78,900 سے زائد اسکولوں کے 1.53 کروڑ طلبہ نے سوریہ نمسکار کی رسومات کو ادا کر کے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ریاستی وزیر تعلیم مدن دلاور، جو اپنے سخت گیر ہندوتو کے نظریات کے لیے مشہور ہیں، مبینہ طور پر سرکاری اسکولوں میں اردو کو بتدریج ختم کر کے اس کی جگہ سنسکرت نافذ کرنے کے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں کے کئی اسکولوں میں طلبہ کافی تعداد میں اردو پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ریاستی وزیر مملکت برائے داخلہ جواہر سنگھ بیدھم نے اس تنازع کو مزید ہوا دے دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو اساتذہ نے جعلی ڈگریوں کے ذریعے نوکریاں حاصل کی ہیں اور سابقہ کانگریس حکومت نے سنسکرت اساتذہ کو ہٹا کر ان کی جگہ اردو اساتذہ کو تعینات کیا تھا۔ تعلیمی نظام میں بی جے پی کی اس مداخلت کو ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت کے اس قدم کو بچوں پر ہندوتو کا نظریہ مسلط کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔

بیکانیر تعلیمی محکمہ نے جے پور کے مہاتما گاندھی گورمنٹ اسکول(آر اے سی بٹالین ) اور بیکا نیر کے ناپا سر سنتھل روڈ پر واقع گورمنٹ سینئر سیکنڈری اسکول میں اردو کی کلاسیز بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں ۔ ان احکامات میں کہا گیا کہ اردو کلاسز ختم کر دی جائیں گی اور ان اسکولوں میں سنسکرت اساتذہ کی آسامیاں تخلیق کی جائیں گی۔ محکمہ تعلیم کا موقف ہے کہ بہت کم طلبہ اردو کو تیسری زبان کے طور پر اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ سنسکرت کے لیے زیادہ طلبہ موجود ہیں ۔لہٰذا سنسکرت اساتذہ کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ راجستھان حکومت کےاس فیصلے پر بڑھتے ہوئے غصے کے درمیان وزیر جواہر سنگھ بید ھم نے 17 فروری کو ضلع ڈیگ میں ایک عوامی تقریب میں کہا کہ اردو اساتذہ نے جعلی ڈگریوں کے ذریعے نوکریاں حاصل کی ہیں اور کانگریس حکومت نے سنسکرت اساتذہ کو ہٹا کر ان کی جگہ اردو اساتذہ کو تعینات کیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ ’’ آج کل کوئی اردو نہیں پڑھتا۔ ہم اردو نہیں جانتے۔ ہم اردو اساتذہ کی آسامیاں ختم کریں گے اور وہی تعلیم دیں گے جو یہاں کے لوگ چاہتے ہیں ۔ہم جلد ہی اس مقصد کو حاصل کر لیں گے ‘‘

جواہر سنگھ بیدھم کے اس بیان پر اردو ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ایسو سی ایشن کے صدر امین قیام خانی نے "انڈیا ٹومارو” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیدھم نے جعلی ڈگریوں کے الزامات بغیر کسی تحقیق کے لگائے ہیں اور ان کے دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔ قیام خانی نے مزید کہا، "وزیر نے لسانی اقلیت کو نشانہ بنا کر ہندو ووٹ بینک کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے، جو بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے‘‘۔کانگریس کے ایم ایل اے رفیق خان، جو بی جے پی حکومت میں بھی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، نے وزیر تعلیم مدن دلاور کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے نشاندہی کی کہ ریاست میں اردو سیکھنے کے خواہشمند طلبہ کی معقول تعداد موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جے پور کے مذکورہ اسکول میں داخل 323 طلبہ میں سے 127 طلبہ اردو کو تیسری زبان کے طور پر پڑھ رہے ہیں اور یہ کہ اردو کلاسز بند کرنے سے ان طلبہ کو نقصان پہنچے گا۔اپوزیشن کی جانب سے بڑھتے دباؤ کے پیش نظررفیق خان نے کہا کہ یہ معاملہ ان کے اپنے اسمبلی حلقے آدرش نگر جے پور سے جڑا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا "میں نے اس اسکول کو انگلش میڈیم میں تبدیل کیا تھا۔ یہاں 127 طلبہ اردو اور صرف 17 طلبہ سنسکرت کی پڑھائی کر رہے ہیں۔ اگر وزیر ایک اور سنسکرت ٹیچر کی آسامی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں، لیکن اردو کی تعلیم بند کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اس معاملے کو اسمبلی میں اور ضرورت پڑی تو عدالت میں بھی لے کر جائیں گے‘‘۔دریں اثنا راجستھان اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے ڈائریکٹر آشیش مودی نے اس حکم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام اسکولوں پر لاگو ہونے والا حکم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی عمومی حکم نہیں ہے۔ بیکانیر کے ناپاسر میں واقع گورنمنٹ اسکول میں صرف ایک طالب علم اردو پڑھ رہا تھا اسی وجہ سے اسے بند کیا گیا۔ جئے پور کے مہاتما گاندھی گورمنٹ اسکول (آر اے سی بٹا لین )میں اردو کی کلاسز بند کرنے کا حکم ضلعی تعلیمی افسر نے وزیر تعلیم کے خصوصی معاون کی ہدایت پر جاری کیا ہے۔ اس حکم میں کہا گیا ہے کہ وزیر بیدھم نے سنسکرت اساتذہ کی آسامیوں کے قیام اور اردو کلاسز کے بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا اپنے اسکول میں سنسکرت کو تیسری زبان کے طور پر شامل کرنے کے لیے مکمل تجویز جلد از جلد اس دفتر میں بھیجیں۔وزیر بیدھم اس سے قبل بھی دسمبر 2024 میں ایک متنازعہ فیصلہ کر چکے ہیں۔ جس میں پولیس کے معمول کے کام میں استعمال ہونے والے اردو الفاظ کو ہندی کے سنسکرت زدہ الفاظ سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کو اردو ادیبوں، اساتذہ، مدرسہ منتظمین اور اپوزیشن کانگریس کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔بیدھم نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اردو، فارسی اور عربی کے الفاظ مغلیہ دور سے پولیس کی اصطلاحات میں شامل ہیں۔ ان کے مطابق، "مغلیہ دور کے دوران اور اس کے بعد بھی اردو زبان بولی اور اسکولوں میں پڑھائی جاتی رہی لیکن آزادی کے بعد تعلیمی پالیسی میں تبدیلیاں کی گئیں ‘‘۔

بیدھم نے مزید کہا کہ موجودہ وقت میں ہندی زیادہ استعمال ہو رہی ہے اور سنسکرت کو تیسری زبان کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔ ان کے بقول پولیس میں نئے بھرتی شدہ اہلکار اور افسران اردو سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ میں نے اس بارے میں متعلقہ حکام سے بات کی ہے اور وہ بھی اس تبدیلی کے حق میں ہیں۔ ہم جلد ہی ایک لائحہ عمل تیار کر کے وزیر اعلیٰ سے مشاورت کریں گے اور یقینی بنائیں گے کہ پولیس کے تمام دفتری کاموں میں خالص ہندی استعمال کی جائے ‘‘

(بشکریہ: انڈیا ٹو مارو ہندی )